اتباع سنت کا اہتمام – ‏٤‏

جمہور امت کے راستہ پر چلنا اور شاذ اقوال سے اجتناب کرنا

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے اس بات کی پیشن گوئی فرمائی ہے کہ ایک ایسا زمانہ آئےگا جب لوگ فتنوں اور آزمائشوں میں مبتلا ہوں گے۔ نیز اس زمانہ میں بہت سے لوگ کتاب وسنّت کے خلاف نئی نئی باتیں پیدا کریں گے۔

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ایسے سنگین حالات میں امّت کو یہ تعلیم دی ہے کہ وہ دین اور سنّت کے راستہ پر چلیں اور وہ ان چیزوں سے اجتناب کریں جو دین میں نہیں ہیں۔

عالم دین کی لغزش

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو جن فتنوں کا اپنی امت پر اندیشہ تھا ان فتنوں میں سے ایک بڑا فتنہ عالمِ دین کی لغزش کا فتنہ ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عالمِ دین کی لغزش کا اندیشہ اس وجہ سے تھا کہ جب عالم دین کوئی لغزش کرے اور غلط راستہ پر چلے، تو اس کی لغزش کا لوگوں پر اثر پڑتا ہے اور لوگ اس لغزش میں اس عالم کی اتباع کرتے ہیں؛ لہذا علماء کی لغزشیں امّت کی گمراہی کا سبب بن سکتی ہیں۔

چنانچہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ بے شک مجھے اپنی امت پر عالم کی زلَّت (لغزش اور غلطی) کا بڑا اندیشہ ہے۔ (مجمع الزوائد)

امّت کے عوام الناس کا حال یہ ہے کہ ان کو قرآن وحدیث سے براہ راست رسائی نہیں ہے اور وہ پورے طور پر علماء پر اعتماد کرتے ہیں اور علماء کی اتباع کرتے ہیں؛ لہذا اگر عالم دین دینی امور میں غلطی کرے، تو کبھی ایسا ہوتا ہے کہ پوری قوم اس غلطی میں اس عالم کی اتباع کرتی ہے اور بالآخر وہ سب گمراہی میں مبتلا ہوتے ہیں۔

جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کی بڑی فکر تھی اسی طرح آپ کے صحابۂ کرام رضی الله عنہم کو بھی اسی بات کی فکر تھی، صحابۂ کرام رضی الله عنہم ہمیشہ یہ فکر کرتے تھے کہ وہ دین کے صحیح راستہ پر چلیں اور وہ دین کے صحیح راستہ پر دوسروں کو بھی چلاویں۔

اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو علم ہوتا کہ لوگ دین میں کوئی نئی بات پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تو وہ پورے طور پر جدو جہد کے ساتھ اس کی اصلاح فرما دیتے تھے اور امّت کی صحیح رہبری فرما دیتے تھے۔

حضرت معاذ بن جبل رضی الله عنہ کی فکر اور رہنمائی

ایک مرتبہ حضرت معاذ بن جبل رضی الله عنہ نے مندرجہ ذیل نصیحت کچھ لوگوں کو فرمائی:

اگر کوئی شخص دین میں نئی بدعات پیدا کرے، تو تم لوگ اس سے احتراز کرو؛ کیونکہ جو نئی بات پیدا ہوگی وہ ضلالت وگمرائی ہے اور میں تم کو عالم کی گمراہی سے ڈراتا ہوں، اس لئے کہ شیطان گمراہی کی بات عالم کی زبان سے کہتا ہے اور کبھی منافق آدمی حق بات کہہ دیتا ہے۔

راوی (یزید بن عمیرہ) نے بیان کیا کہ میں نے حضرت معاذ رضی الله عنہ سے معلوم کیا کہ مجھے اس بات کا علم کس طرح ہوگا کہ دانا (عقلمند یا عالم) شخص گمراہی کی بات بتلا رہا ہے اور منافق کبھی حق بات کہہ دیتا ہے؟

حضرت معاذ رضی الله عنہ نے جواب دیا: ہاں، تم عالم شخص کی ان باتوں سے احتراز کرو جو شہرت پا جائیں اور لوگ اس کے متعلق باتیں بنانے لگیں (یعنی اس پر اعتراض کرنے لگیں)؛ لیکن ایسی باتوں کی وجہ سے تم عالم سے منحرف نہ ہو جانا؛ کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی غلطی سے رجوع کر لے اور تم جب بھی حق بات سنو، قبول کر لو؛ کیونکہ حق میں ایک روشنی ہوتی ہے۔ (ابو داؤد)

آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے لوگ کسی ناجائز چیز یا کام کو جائز بنانے کی کوشش میں بعض علماء کا نام لیتے ہیں اور پیش کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ فلاں عالم نے فلاں چیز یا کام کو جائز کہا ہے؛ لیکن وہ سمجھتے نہیں کہ شریعت میں جواز اور عدم جواز کی بنیاد قرآن وحدیث ہے نہ کہ کسی شخص کا قول یا فعل۔

چنانچہ حضرت معاذ بن جبل رضی الله عنہ کی مندرجہ بالا نصیحت سے ہم سمجھتے ہیں کہ عالم سے بھی غلطی ہو سکتی ہے اور اس کی غلطی کو جاننے کا طریقہ یہ ہے کہ دوسرے نیک علماء اس کی رائے پر اعتراض کریں گے اور اس غلطی کی اصلاح کریں گے اور وہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی صاف سنّت کی طرف امّت کی صحیح رہبری کریں گے۔

Check Also

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری – ساتویں قسط

لوگوں کی اصلاح کے لیے ہمارے اسلاف کا خوب صورت انداز حضرت حسن اور حضرت …