علامات قیامت – تیسری قسط

قیامت کی بڑی علامتوں سے پہلے چھوٹی علامتوں کا ظہور

احادیث مبارکہ میں قیامت کی بہت سی چھوٹی علامتیں بیان کی گئی ہیں۔ ان چھوٹی علامتوں پر غور کرنے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ چھوٹی علامتیں جب پورے عالم میں شدّت کے ساتھ رونما ہوں گی اور وہ رفتہ رفتہ ہر جگہ میں عروج اور ترقّی پر ہوں گی، تو یہ چھوٹی علامتیں بڑی علامتوں کے ظہور کی طرف لے جائیں گی اور وہ بڑی علامتوں کے وقوع کا ذریعہ بنیں گی۔

بعض احادیث مبارکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنوں کی شدّت کی مثال ایک اندھیری رات سے کی ہے۔ رات جب آتی ہے تو جیسے رات کے اوقات گزرتے ہیں اس کی اندھیری بڑھتی جاتی ہے اور وہ اندھیری اور ظلمت میں ترقّی کرتی ہے اسی طرح زمانہ کے فتنوں کا حال ہوگا کہ جیسے زمانے گزرتے جاتے ہیں زمانے کے فتنوں کی شدّت بھی عروج اور ترقّی پر ہوگی، چنانچہ اس سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امّت کو نصیحت فرما کر ارشاد فرمایا:

تم لوگ جتنا زیادہ سے زیادہ اعمال صالحہ کر سکتے ہو، تو جلدی ان کو کرو، ان فتنوں کے آنے سے پہلے کرو جو اندھیری رات کے حصّوں کی طرح آئیں گے (پے در پے آئیں گے)۔ (اس وقت کا حال یہ ہوگا کہ بعض) انسان مؤمن ہونے کی حالت میں صبح گزارےگا اور شام کو وہ کافر ہو جائےگا۔ اسی طرح (بعض) انسان مؤمن ہونے کی حالت میں شام کو گزارےگا اور صبح کو وہ کافر ہو جائےگا اور وہ دنیا کی معمولی سی چیز کے بدلہ اپنا دین وایمان بیچ دےگا۔ (مسلم شریف)

فتنوں کی شدّت کا ایک سبب ”مال کی محبّت“ ہے؛ کیونکہ مال کی محبّت کی وجہ سے انسان اپنی دینی صفات واقدار، اخلاق وکردار اور شرم وحیا کو رخصت کر دےگا اور چھوڑ دےگا اور حصول مال کے لئے اپنا دین وایمان بیچ ڈالےگا۔

لہذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بےشک قیامت سے پہلے (تم دیکھوگے کہ بہت سے) لوگ صرف مخصوص لوگوں کو سلام کریں گے اور (تم دیکھوگے کہ) تجارت کو فروغ دینے کے لئے عورتیں اپنے گھروں سے باہر نکلیں گی؛ تاکہ وہ تجارت میں اپنے شوہروں کی مدد کریں گی اور (تم دیکھوگے کہ) رشتہ داروں سے قطع تعلق (کا گناہ) عام ہو جائےگا (یہ ساری برائیاں مال کی محبّت کی وجہ سے پیدا ہوں گی)۔ (مسند احمد)

پانچ بنیادی فتنے جو تمام فتنوں کی جڑ 

فتنوں کے موضوع کے متعلق جتنے بھی احادیث مبارکہ منقول ہیں، تو ان احادیث پر نظر ڈالنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ بنیادی فتنے ہیں اور وہ تمام فتنوں کی جڑ ہیں۔

یہ پانچ فتنے انتہائی مہلک اور بہت سے بڑے بڑے دینی نقصانات اور برائیوں کے اسباب ہیں اور وہ بہت سی دوسری برائیوں کے وجود میں آنے کا ذریعہ ہیں:

 (۱) کفار اور یہودونصاری کی مشابہت اختیار کرنا (۲) شرم وحیاکا فقدان ہو جانا (۳) دین اور دین سے متعلق چیزوں کی بے ادبی کرنا اور لوگوں کے حقوق کی ادائیگی میں غفلت برتنا (۴) مال کی محبّت اور خواہشاتِ نفسانی کی پیروی کرنا (۵) اپنی رائے کو دین کے خلاف پسند کرنا اور علمائے صالحین کی طرف رجوع نہ کرنا۔

کفّار اور یہود ونصاری کی مشابہت اختیار کرنے کا فتنہ

دین وایمان کے لئے انتہائی خطرناک فتنوں میں سے ایک فتنہ کفّار اور یہود ونصاری کی مشابہت اختیار کرنے کا فتنہ ہے۔ یہ انتہائی خطرناک فتنہ ہے اور یہ دین وایمان کی بربادی کا سبب ہے۔

ایک حدیث شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی پیشن گوئی فرمائی ہے کہ قیامت سے پہلے کے فتنوں میں سے جو امّت کی تباہی کا باعث ہوگا ان میں سے ایک فتنہ یہ ہے کہ قیامت سے پہلے امّت کفّار اور یہود ونصاری کی طرزِ زندگی اور طریقہ کی مشابہت اختیار کرےگی اور ان کے نقشِ قدم پر چلے گی۔

چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یقیناً تم لوگ پچھلی امّتوں کے طریقوں پر چلوگے بالشت بالشت کے برابر اور ذراع ذراع کے برابر (یعنی امّت کے وہ لوگ جو قیامت سے پہلے آئیں گے، وہ کفار کے اتنے مشابہ ہو جائیں گے جیسا کہ بالشت بالشت کے برابر اور ذراع ذراع کے برابر)؛ یہاں تک کہ اگر وہ گوہ کے بِل میں گھسیں گے، تو تم بھی اس میں جانے میں ان کی پیروی کروگے۔ یہ سن کر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! کیا یہود ونصاری مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اور کون؟ (صحیح بخاری)

قرآن وحدیث میں ایمان والوں کو کفار کے ساتھ دوستی کرنے اور تعلق رکھنے سے روکا گیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر مؤمن کفّار کے ساتھ دوستی اور تعلق رکھے، تو ضرور بالضرور وہ کفّار کی طرزِ زندگی سے متاثر ہو کر ان کے اطوار وعادات، افکار وخیالات، اقدار ورویّات اور کپڑوں کی نقل کرےگا اور بالآخر اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ اپنی دینی ذمہ داریوں سے غافل ہو جائےگا اور وہ اپنے فرائض وواجبات کو پورا نہیں کرےگا (جو اس کے ذمہ لازم ہے اللہ تعالیٰ اور مخلوق کے لئے) یا ان میں کوتاہی کرےگا؛ لہذا جب کوئی مؤمن کافروں اور ان کے اطوار وعادات کی طرف مائل ہو، تو وہ ان کی طرح زندگی گزارنا شروع کرےگا اور بالآخر وہ اپنی اسلامی اطوار وعادات کو ترک کر دےگا۔

مسلمانوں کا انحطاط

ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے قیامت کی مختلف نشانیاں اور علامتیں بیان فرمائی۔ اگر ہم ان علامتوں پر غور کریں جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا، تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ان علامتوں میں ان چار باقی فتنوں کا تذکرہ ہے، جن کا ہم نے ماقبل میں ذکر کیا ہے۔

چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ”جب مالِ فیئ (جنگ کے بغیر حاصل ہونے والے مال) کو ذاتی مال شمار کیا جائےگا جس کو لوگ ہاتھوں ہاتھ لیں گے اور استعمال کریں گے اور امانت کو مالِ غنیمت (جنگ کے بعد حاصل ہونے والا مال) سمجھا جائےگا (یعنی لوگ امانت میں خیانت کریں گے) اور زکوٰۃ کو ٹیکس سمجھا جائےگا، علمِ دین دین پر عمل کرنے کے واسطے حاصل نہیں کیا جائےگا؛ بلکہ کسی اور مقصد کے لیے حاصل کیا جائےگا (یعنی دنیا کے لیے)، آدمی اپنی بیوی کی سنےگا اور ماں کی نافرمانی کرےگا۔ اپنے دوست کو قریب کرےگا اور والد کو دور کرےگا، مسجدوں میں آوازیں بلند ہوں گی (شور وشغب ہوگا)۔ فاسق آدمی قبیلہ کا سردار بنےگا، قوم کا سربراہ گٹھیا آدمی ہوگا، آدمی کی عزت اس کی بُرائی کے ڈر کی وجہ سے کی جائےگا، گانے والیاں اور موسیقی کے آلات عام ہو جائیں گے، کھلم کھلا شرابیں پی جائیں گی اور اس امت کے پچھلے لوگ اگلے لوگوں (سلفِ صالحین) پر لعنت کریں گے (یعنی بُرا بھلا کہیں گے)، تو (ان نشانیوں کے ظاہر ہونے کے بعد) انتظار کرو سرخ آندھیاں، زلزلے، لوگوں کا زمین میں دھنسنا، لوگوں کی شکلیں بگڑنا، پتھروں کی بارش ہونا اور اس قسم کی دیگر نشانیاں جو دنیا میں مسلسل ظاہر ہوں گی اور یہ نشانیاں پے در پے ظاہر ہوں گی جیسے کہ ہار جب اس کا دھاگا کاٹ دیا جائے، تو اس کی موتیاں مسلسل گرنے لگتی ہیں۔“

امّت کے لئے فتنوں سے نجات کا راستہ 

ایک مرتبہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی الله عنہم کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا: تم اچھے کاموں کا حکم دیتے رہو اور برے کاموں سے روکتے رہو، یہاں تک کہ تم دیکھ لوگے کہ ایک ایسا زمانہ آئےگا جہاں مال کی لالچ کی تابعداری کی جاتی ہو اور خواہشاتِ نفسانی کی پیروی کی جاتی ہو اور دنیا کو (دین پر) ترجیح دی جاتی ہو اور ہر صاحب رائے اپنی رائے کو پسند کرتا ہو، تو اس وقت تم اپنے آپ کو لازم پکڑ لو اور عوام کو چھوڑ دو (یعنی تم اپنے آپ کو فتنوں سے بچانے کی زیادہ فکر کرو اور لوگوں کے ساتھ اختلاط کرنے کو چھوڑ دو)؛ کیونکہ اس کے بعد آنے والے دن صبر کے دن ہوں گے، ان میں صبر کرنا ایسے ہی ہوگا جیسے چنگاری ہاتھ میں لینا (یعنی ان دنوں میں فتنے بہت زیادہ ہوں گے اور لوگوں کے لئے اپنے دین کی حفاظت کرنا بہت مشکل ہوگا)، اس زمانہ میں اچھے کام کرنے والے کو نیک کام کے بدلہ پچاس آدمیوں کے برابر ثواب ملےگا جو دوسرے وقت میں ان جیسے اچھے کام کرنے و کریں، یہ سن کر ایک صحابی نے عرض کیا: اے الله کے رسول ! کیا اُس زمانہ کے اچھے کام کرنے والے کا ثواب اُس زمانہ کے پچاس آدمیوں کے برابر ہوگا یا ہمارے اِس زمانہ کے پچاس آدمیوں کے برابر ہوگا جو ان جیسے اچھے کام کرتے ہیں (یعنی اس کو صحابہ کے پچاس آدمیوں کے برابر ثواب ملےگا) آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، بلکہ اس کا ثواب تمہارے پچاس آدمیوں (صحابہ) کے برابر ہوگا، جنہوں نے ان جیسے اچھے کام کئے تھے۔ (سنن ابی داؤد)

اس حدیث سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ جس زمانہ میں فتنے دنیا میں عام ہو جائیں اور فتنے ہر جگہ میں پھیل جائیں، تو اس نازک زمانہ میں امّت کے لئے فتنوں سے نجات کا راستہ صرف یہ ہے کہ امّت مضبوطی سے دین پر قائم رہے، تمام اسلامی تعلیمات پر عمل کرے اور ان لوگوں کی صحبت سے بچے، جو فتنوں میں مبتلا ہیں۔

یہ بات ذہن نشیں رہے کہ امّت پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا یہ عظیم احسان ہے کہ فتنے کے دور میں انہوں نے اتنا بڑا ثواب عطا فرمایا کہ نیک عمل کرنے والے کا ثواب پچاس صحابہ کرام کے ثواب کے برابر ہوگا۔

علمائے کرام نے لکھا ہے کہ ثواب کا بڑھ جانا ثواب کے مقدار کے اعتبار سے ہے نہ کہ کیفیت کے اعتبار سے، یہ اس وجہ سے ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ”اگر تم میں سے کوئی شخص احد کے پہاڑ کے برابر سونا (صدقہ میں) خرچ کرے، تو وہ ثواب میں صحابہ کے ایک مدّ یا آدھے مدّ کے برابر کو نہیں پہنچےگا، جو وہ دین کے لئے خرچ کرے۔“ (سنن ابی داؤد)

لہذا امّت کے نیک اعمال صحابہ کے نیک اعمال کے قریب نہیں پہنچ سکتے ہیں، یہ اس وجہ سے ہے کہ جو قربانیاں صحابہ کرام نے دی ہیں اللہ تعالیٰ کے راستہ میں اخلاص کے ساتھ وہ اسلام کے شروع زمانہ میں تھیں اور وہ اللہ تعالیٰ کے یہاں سب سے زیادہ مقبول ہیں۔ دراصل ان کی قربانیوں سے دین قائم ہوا اور محفوظ ہوا اور ہم تک پہنچا۔

Source: http://ihyaauddeen.co.za/?p=18914


Check Also

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری – ساتویں قسط

لوگوں کی اصلاح کے لیے ہمارے اسلاف کا خوب صورت انداز حضرت حسن اور حضرت …