باغِ محبّت (چھبیسویں قسط)‏

بسم الله الرحمن الرحيم

نیک اولاد – آخرت کا اصل سرمایہ

انسان پر الله تعالیٰ کی بیش بہا نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت اولاد کی نعمت ہے۔ قرآن مجید میں الله تعالیٰ نے اس بڑی نعمت کا ذکر فرمایا ہے۔

الله تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَجَعَلَ لَكُم مِّنْ أَزْوَاجِكُم بَنِينَ وَحَفَدَةً وَرَزَقَكُم مِّنَ ٱلطَّيِّبٰتِ (سورة النحل: ٧٢)

الله تعالیٰ نے تم ہی میں سے تمہارے لئے بیویاں بنائیں اور ان بیویوں سے تمہارے لئے بیٹے اور پوتے پیدا کئے اور تم کو اچھی اچھی چیزیں کھانے کو دیں۔

الله تعالیٰ کی بہت سی نعمتیں ایسی ہیں کہ ان کا فائدہ اور بھلائی انسان کی زندگی تک محدود ہے؛ لیکن اولاد کی نعمت ایسا سرمایہ ہے جو انسان کو اپنی زندگی میں صرف فائدہ نہیں پہونچاتا ہے؛ بلکہ وہ اس کو اس کے انتقال کے بعد بھی فائدہ پہونچائےگا۔

البتہ اولاد کا سرمایہ انسان کے لئے تب ہی فائدہ اور بھلائی کا باعث بنےگا جب انسان اپنی اولاد میں دینی صفات پیدا کرے اور الله تعالیٰ سے اپنی اولاد کا تعلق مضبوط کرے۔ جب تک اولاد دین پر قائم رہےگی اور اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارےگی، تو انسان کا یہ سرمایہ اس کو فائدہ پہونچائےگا؛ یہاں تک کہ اس کے انتقال کے بعد بھی اس کے لئے فائدہ اور اجر حاصل کرنے کا ذریعہ بنےگا۔

حضرت ابو قتادہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے بہترین چیزیں جو آدمی اپنی موت کے بعد چھوڑ سکتا ہے وہ تین چیزیں ہیں: نیک اولاد جو اس کے لئے دعائے خیر کرتی رہے، صدقہ جاریہ جس کا ثواب اس کو موت کے بعد پہونچتا رہے اور ایسا علمِ دین (جو آدمی لوگوں کو سکھاوے) کہ اس کی موت کے بعد اس علم پر عمل کیا جاتا رہے۔

ایک دوسری روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: کسی باپ نے اپنے بیٹے کو ایسا کوئی تحفہ اور ہدیہ نہیں دیا جو حسن ادب کے تحفہ سے بہتر ہے۔

ایک اور روایت میں ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ اپنی اولاد کے ساتھ اچھا سلوک اور برتاؤ کرو اور انہیں بہترین ادب سکھاؤ۔

اولاد کے اندر دینی صفات پیدا کرنا والدین پر اتنا اہم فریضہ ہے کہ قرآن مجید میں الله تعالیٰ نے والدین کو اس فریضہ کے پورا کرنے کا حکم دیا۔

الله تعالی کا ارشاد ہے:

يٓأَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوْا قُوٓا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيْكُمْ نَارًا (سورة التحريم: ٦)

اے ایمان والو ! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔

اس آیت کریمہ سے ہمیں معملوم ہوتا ہے کہ انسان کو چاہیئے کہ وہ اپنی بیوی اور بچوں کو دین کی طرف رہنمائی کرے اور انہیں گمراہی کے راستہ پر چلنے سے بچائے؛ کیونکہ قیامت کے دن انسان کو اس فریضہ اور ذمہ داری کے بارے میں سوال کیا جائےگا۔

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے ہر ایک چرواہا ہے اور اس سے اس کے ریوڑ کے متعلق سوال ہوگا۔ امام چرواہا ہے اور اس سے اس کے ماتحتوں کے بارے میں سوال ہوگا۔ انسان اپنے گھر والوں کا چرواہا ہے اور اس سے اس کے گھر والوں کے بارے میں سوال ہوگا۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی چرواہی ہے اور اس سے اس کی رعیّت کے بارے میں سوال ہوگا۔ (صحیح البخاری)

اگر انسان اپنی اولاد کی تربیت میں کوتاہی کرے، انہیں اسلامی تعلیمات کے مطابق تربیت نہ دے اور اس بات کی نگرانی نہ کرے کہ اس کی اولاد کا اٹھنا بیٹھنا کس طرح کے لوگوں کے ساتھ ہے، اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کی اولاد گناہوں اور برائیوں میں مبتلا ہو جائےگی اور بالآخر وہ اس کے لئے دنیا اور آخرت میں وبال اور مصیبت بن جائےگی۔

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے امت کو سرکش اولاد سے پناہ مانگنے کے لئے دعائیں سکھائیں۔ منجملہ ان دعاوں میں سے یہ دعا ہے:

اللّٰهُمَّ إِنِّي أَعُوذُبِكَ مِنْ جَارِ السُّوءِ، وَمِنْ زَوْجٍ تُشَيِّبُنِي قَبْلَ الْمَشِيبِ، وَمِنْ وَلَدٍ يَكُونُ عَلَيَّ رَبًّا (الدعاء للطبراني، الرقم: ١٣٣٩)

اے الله ! میں آپ کی پناہ طلب کرتا ہوں برے پڑوسی سے اور ایسی بیوی سے جو مجھے بڑھاپے سے پہلے میرے بال سفید کر دے اور ایسے لڑکے سے جو میرے اوپر غالب آئے۔

اسی طرح ایک روایت میں آیا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام یہ دعا کیا کرتے تھے:

اللّٰهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ مَالٍ يَكُونُ عَلَيَّ فِتْنَةً، وَمَنْ وَلَدٍ يَكُونُ عَلَيَّ وَبَالًا (مجمع الزوائد، الرقم: ١٧٤٢٩)

اے الله ! میں آپ کی پناہ طلب کرتا ہوں ایسے مال سے جو میرے لئے باعث آزمائش بن جائے اور ایسے لڑکے سے جو میرے لئے وبال بن جائے۔

حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اپنے مبارک افعال، اقوال اور اخلاق سے صحابۂ کرام رضی الله عنہم اور امت کو سکھایا تھا کہ وہ کس طریقہ سے اپنی اولاد کی تربیت کرے اور ان کو اچھے آداب اور صفات سکھائے۔

کسی بچہ میں اچھی صفات، اخلاق اور آداب پیدا کرنے کے لئے بہت سی باتوں پر خیال اور غور کرنے کی ضرورت ہے، ان میں سے مندرجہ ذیل امور کا خیال رکھنا چاہیئے:

(۱) بچہ کو صحیح اسلامی عقائد کی تعلیم دینا اور اس کے ایمان کو مضبوط کرنے کی کوشش کرنا

(۲) بچہ پر الله تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی اور گناہوں سے بچنے کی تاکید کرنا

(۳) بچہ پر حقوق العباد کی ادائیگی کی تاکید کرنا

(٤) بچہ کو ہر ایک کے ساتھ ادب واحترام سے پیش آنے اور حسن سلوک کی تعلیم دینا

(۵) بچہ کو ظاہری اور باطنی پاکزگی کی اہمیت کی تعلیم دینا

(٦) بچہ کے دل میں الله تعالیٰ کا خوف پیدا کرنا اور شرم وحیا کی تعلیم دینا

(۷) بچہ کو اچھی صحبت کی ترغیب دینا اور بری صحبت کے نقصانات سے آگاہ کرنا

(۸) بچہ کو الله تعالیٰ کی رحمت کے حصول کے اسباب کی تعلیم دینا

ان شاء الله آئندہ ہم ان موضوعات پر کچھ لکھیں گے اور ان پر کچھ پیش کریں گے۔

Source: http://ihyaauddeen.co.za/?p=17837


Check Also

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری – ساتویں قسط

لوگوں کی اصلاح کے لیے ہمارے اسلاف کا خوب صورت انداز حضرت حسن اور حضرت …