‏(۱۱)‏ جنازہ کے متعلق متفرق مسائل

میّت کے جسم سے جدا اعضا کا غسل

سوال:- بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ میّت کے جسم سے بعض اعضا جدا ہوتے ہیں مثلاً  گاڑی کے حادثہ وغیرہ میں میّت کے کچھ اعضا ٹوٹ جاتے ہیں اور جسم سے جدا ہوتے ہیں، تو کیا غسل کے وقت ان الگ کئے ہوئے اعضا کو بھی غسل دیا جائےگا اور ان کو کفنا دیا جائےگا؟

جواب:- جو اعضا میت کے جسم سے الگ ہو گئے (مثلاً ہاتھ، پیر وغیرہ) ان کو غسل نہیں دیا جائےگا؛ بلکہ صرف میّت کے جسم کو غسل دیا جائےگا۔ پھر جو اعضا میّت کے جسم سے جدا ہوئے، ان کو ایک کپڑے میں لپیٹ کر میّت کے ساتھ دفنا دیا جائےگا۔ [۱]

میّت کے غسل میں غیر مسلم کی شرکت

سوال:- کیا میّت کے غسل میں میّت کا غیر مسلم رشتہ دار شرکت کر سکتا ہے؟

جواب:- صرف مسلمان لوگ میّت کو غسل دے۔ غیر مسلم (خواہ میّت کے رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو) میّت کو غسل نہ دے اور غسل دینے میں شرکت نہ کرے۔ [۲]

Source:


 

[۱] إذا وجد طرف من أطراف الإنسان كيد أو رجل أنه لا يغسل لأن الشرع ورد بغسل الميت والميت اسم لكله ولو وجد الأكثر منه غسل لأن للأكثر حكم الكل وإن وجد الأقل منه أو النصف لم يغسل كذا ذكر القدوري في شرحه مختصر الكرخي لأن هذا القدر ليس بميت حقيقة وحكما ولأن الغسل للصلاة وما لم يزد على النصف لا يصلى عليه فلا يغسل أيضا وذكر القاضي في شرحه مختصر الطحاوي أنه إذا وجد النصف ومعه الرأس يغسل وإن لم يكن معه الرأس لا يغسل فكأنه جعله مع الرأس في حكم الأكثر لكونه معظم البدن (بدائع الصنائع ۲/۳٠۲)

والسقط يلف ولا يكفن كالعضو من الميت قال الشامي : قوله ( والسقط يلف ) أي في خرقة لأنه ليس له حرمة كاملة وكذا من ولد ميتا بدائع قوله ( ولا يكفن ) أي لا يراعى فيه سنة الكفن وهل النفي بمعنى النهي أو بمعنى نفي اللزوم الظاهر الثاني فليتأمل قوله ( كالعضو من الميت ) أي لو وجد طرف من أطراف إنسان أو نصفه مشقوقا طولا أو عرضا يلف في خرقة إلا إذا كان معه الرأس فيكفن كما في البدائع قال وكذا الكافر لو له ذو رحم محرم مسلم يغسله ويكفنه في خرقة لأن التكفين على وجه السنة من باب الكراهة اهـ (رد المحتار ۲/۲٠۳)

[۲]  ولو كان الغاسل جنبا أو حائضا أو كافرا جاز ويكره كذا في معراج الدراية (الفتاوى الهندية ۱/۱۵۹)

Check Also

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری – ساتویں قسط

لوگوں کی اصلاح کے لیے ہمارے اسلاف کا خوب صورت انداز حضرت حسن اور حضرت …