نماز کی سنتیں اور آداب – ۸

متفرق مسائل مردوں کی نماز سے متعلق 

سوال:- کیا مقتدی امام کے پیچھے ثنا، تعوّذ، تسمیہ اور قراءت پڑھے؟

جواب:- مقتدی صرف ثنا پڑھے اور اس کے بعد خاموش رہے۔ مقتدی امام کے پیچھے تعوّذ، تسمیہ اور قراءت نہ ‏پڑھے۔

سوال:- اگر مقتدی جماعت میں اس وقت شامل ہو جائے جب امام نے قراءت شروع کر دی، تو کیا مقتدی ثنا پڑھے یا نہ پڑھے؟

جواب:- اگر مقتدی جماعت میں قراءت شروع ہونے کے بعد شامل ہو جائے، تو وہ ثنا نہ پڑھے؛ بلکہ تکبیرِ ‏تحریمہ کہنے کے بعد وہ خاموش رہے۔

سوال:- کیا مصلّی سورۂ فاتحہ پڑھنے کے بعد تسمیہ آہستہ پڑھے یا نہ پڑھے؟

جواب:- اگر مصلّی سورۂ فاتحہ کے بعد کوئی سورت شروع کرنے والا ہو، تو وہ تسمیہ آہستہ پڑھے اور اگر وہ سورۂ فاتحہ کے بعد کوئی سورت شروع کرنے والا نہ ہو، تو وہ سورۂ فاتحہ کے بعد تسمیہ نہ پڑھے۔

سوال:- پنج وقتہ فرض نمازوں میں مسنون قراءت کیا ہے؟ اسی طرح سنّت اور وتر نمازوں میں مسنون قراءت کیا ہے؟

جواب:- پنج وقتہ فرض نمازوں میں مسنون قراءت یہ ہے کہ مفصل سورتوں میں سے قراءت کی جائے۔‏

‏فجر اور ظہر میں مسنون قراءت یہ ہے کہ طوالِ مفصل (از سورۂ حجرات تا سورۂ انشقاق) سورتوں میں سے قراءت کی جائے۔

عصر اور عشاء میں اوساطِ مفصل (از سورۂ بروج تا سورۂ قدر) سورتوں میں سے قراءت کی جائے۔

‏اور مغرب کی نماز میں قصارِ مفصل (از سورۂ بیّنہ تا سورۂ ناس) سورتوں میں سے قراءت کی جائے۔ [۱]

یہ سب مسنون قراءتیں ہیں جو پنج وقتہ فرض نمازوں کے لئے ہیں؛ لہذا مصلّی کو چاہیئے کہ وہ ان سورتوں میں سے کسی سورت سے پڑھنے کا اہتمام کرے۔ البتہ اگر کوئی ‏کبھی کبھار قرآن مجید کی دوسری سورتوں میں سے پڑھے، تو یہ جائز ہے اور یہ خلافِ سنّت نہیں کہا جائےگا، کیوں کہ بعض احادیث میں منقول ہے کہ نبئ کریم صلی الله علیہ وسلم اور ‏صحابۂ کرام رضی الله عنہم بسا اوقات مسنون سورتوں کے بجائے دوسری سورتوں میں سے پڑھتے تھے۔ [۲]

جہاں تک قراءت کی مقدار کی بات ہے تو امام کو چاہیئے کہ ان مقتدیوں کی رعایت اور لحاظ کرے جن کی وہ امامت کر رہا ہے۔‏ [۳]

جہاں تک وتر، سنّت اور نفل نمازوں کی بات ہے، تو ان نمازوں میں آدمی قرآنِ مجید میں سے جس جگہ سے پڑھنا چاہے وہ پڑھ سکتا ہے۔ ‏البتہ یہ بات ذہن نشیں رہے کہ حدیث شریف میں وتر اور بعض سنّت نمازوں کے بارے میں کچھ مسنون سورتوں کی قراءت منقول ہے، لہذا آدمی کو وتر اور ان بعض سنت نمازوں میں وہی مسنون سورتوں کو پڑھنا چاہیئے (اگر چہ دوسری سورتوں کا پڑھنا بھی جائز ہے)۔‎

سوال:- وتر نماز میں مسنون قراءت اور مسنون سورتیں کیا ہیں؟

جواب:- وتر کی نماز میں چند مسنون قراءت اور مسنون سورتیں ہیں۔ احادیث مبارکہ میں وتر نماز کے بارے میں مندرجہ ذیل مسنون قراءت اور مسنون سورتیں منقول ہیں:

(الف) پہلی رکعت میں سورۂ اعلیٰ پڑھے، دوسری رکعت میں سورۂ کافرون پڑھے اور تیسری رکعت میں سورۂ اخلاص پڑھے۔ [٤]

(ب) پہلی رکعت میں سورۂ بقرہ کی آخری آیتیں (آمن الرسول سے آخر تک) پڑھے، دوسری رکعت میں سورۂ  قدر پڑھے اور تیسری رکعت میں ‏سورۂ اخلاص پڑھے۔ [۵]

(ج) پہلی رکعت میں سورۂ بقرہ کی آخری آیتیں (آمن الرسول سے آخر تک) پڑھے، دوسری رکعت میں سورۂ کافرون پڑھے اور تیسری رکعت ‏میں سورۂ اخلاص پڑھے۔ [٦]

(د) پہلی رکعت میں سورۂ قدر پڑھے، دوسری رکعت میں سورۂ کافرون پڑھے اور تیسری رکعت میں سورۂ اخلاص پڑھے۔ [۷]

(ر) پہلی رکعت میں سورۂ تکاثر، سورۂ قدر اور سورۂ زلزال پڑھے، دوسری رکعت میں سورۂ عصر، سورۂ نصر اور سورۂ کوثر پڑھے اور تیسری رکعت ‏میں سورۂ کافرون، سورۂ لہب اور سورۂ اخلاص پڑھے۔ [۸]

سوال:- اگر کوئی مصلی سجدہ کے دوران اپنے دونوں پیروں کو زمین سے اٹھالے، تو کیا اس کی نماز درست ہوگی؟ ‏

جواب:- دورانِ سجدہ مصلی کے لئے اپنے دونوں پیروں کو زمین سے اٹھانا جائز نہیں ہے۔ اگر مصلی اپنے دونوں پیروں کو زمین سے اٹھائے اتنی دیر کے لئے جتنی دیر میں تین بار سبحان الله کہنا ممکن ہو، تو اس کی نماز فاسد ہو جائے گی۔ [۹]

سوال:- ایک شخص کھڑے ہو کر فرض نماز پڑھنے پر قادر ہے، نیز وہ بآسانی رکوع کر سکتا ہے اور سجدہ بھی زمین پر ادا کر سکتا ہے، تو کیا اس کے ‏لئے کرسی پر بیٹھ کر فرض نماز ادا کرنا جائز ہے؟ ‏

جواب:- جو شخص کھڑے ہو کر فرض نماز پڑھ سکتا ہے اور رکوع پر قادر ہو، نیز سجدہ زمین پر ادا کرنے پر بھی قادر ہو، تو اس کے لیے کرسی پر بیٹھ کر فرض نماز ادا کرنا جائز نہیں ہے۔ اگر وہ کرسی پر بیٹھ کر اپنی فرض نماز ادا کرے، تو اس کی فرض نماز درست نہیں ہوگی۔

البتہ اگر کوئی شخص کھڑے ہو کر فرض نماز پڑھنے پر قادر نہ ہو اور نہ وہ زمین ‏پر سجدہ کر سکتا ہو، تو اس کے لیے کرسی پر بیٹھ کر فرض نماز ادا کرنا جائز ہے۔ [۱۰]


[۱] وأن تكون السورة المضمومة للفاتحة من طوال المفصل في الفجر والظهر ومن أوساطه في العصر والعشاء ومن قصاره في المغرب لو كان مقيمًا فالطوال من سورة الحجرات إلى البروج وأوساطه منها إلى لم يكن وقصاره منها إلى آخره (مراقي الفلاح مع حاشية الطحطاوي صـ ۲٦۲)

[۲] عن ابن عباس عن أمه أم الفضل قالت خرج إلينا رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو عاصب رأسه في مرضه فصلى المغرب فقرأ بالمرسلات (سنن الترمذي، الرقم: ۳٠۸)

[۳] عن عثمان بن أبي العاص قال قلت وقال موسى في موضع آخر إن عثمان بن أبي العاص قال يا رسول الله اجعلني إمام قومي قال أنت إمامهم واقتد بأضعفهم واتخذ مؤذنا لا يأخذ على أذانه أجرا (سنن أبي داود، الرقم: ۵۳۱)

ينبغي للإمام أن يقرأ مقدار ما يخف على القوم ولا يثقل عليهم بعد أن يكون على التمام لما روي عن عثمان بن أبي العاص الثقفي أنه قال آخر ما عهد إلي رسول الله صلى الله عليه وسلم أن أصلي بالقوم صلاة أضعفهم وروي عنه صلى الله عليه وسلم أنه قال من أم قوما فليصل بهم صلاة أضعفهم فإن فيهم الصغير والكبير وذا الحاجة وروي أن قوم معاذ لما شكوا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم تطويل القراءة دعاه فقال أفتان أنت يا معاذ قالها ثلاثا أين أنت من والسماء والطارق والشمس وضحاها قال الراوي فما رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم في موعظة أشد منه في تلك الموعظة وعن أنس رضي الله عنه أنه قال ما صليت خلف أحد أتم وأخف مما صليت خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم وروي أنه صلى الله عليه وسلم قرأ بالمعوذتين في صلاة الفجر يوما فلما فرغ قالوا أوجزت فقال صلى الله عليه وسلم سمعت بكاء صبي فخشيت على أمه أن تفتتن دل على أن الإمام ينبغي له أن يراعي حال قومه ولأن مراعاة حال القوم سبب لتكثير الجماعة فكان ذلك مندوبا إليه (بدائع الصنائع ۱/۲٠٦)

[٤] عن ابن عباس قال كان النبي صلى الله عليه وسلم يقرأ في الوتر ب سبح اسم ربك الأعلى وقل يا أيها الكافرون وقل هو الله أحد في ركعة ركعة (سنن الترمذي، الرقم: ٤٦۲)

[۵] وعن سعيد بن جبير قال لما أمر عمر بن الخطاب أبي بن كعب أن يقوم بالناس في رمضان كان يوتر بهم فيقرأ في الركعة الأولى إنا أنزلناه في ليلة القدر وفي الثانية بقل يا أيها الكافرون وفي الثالثة قل هو الله أحد وعن سعيد بن جبير أنه كان يقرأ في الوتر في أول ركعة خاتمة البقرة وفي الثانية إنا أنزلناه في ليلة القدر وربما قرأ قل يا أيها الكافرون وفي الثالثة قل هو الله أحد (مختصر قيام الليل صـ ۳٠٤، ونقله العلامة السبكي  رحمه الله عن محمد بن نصر رحمه الله صاحب قيام الليل في المنهل العذب المورود ۸/۵۵)

[٦] عن علي قال كان النبي صلى الله عليه وسلم يوتر بتسع سور من المفصل في الركعة الأولى ألهاكم التكاثر وإنا أنزلناه في ليلة القدر وإذا زلزلت وفي الثانية والعصر وإذا جاء نصر الله وإنا أعطيناك الكوثر وفي الثالثة قل يا أيها الكافرون وتبت وقل هو الله أحد (شرح معاني الأثار للطحاوي، الرقم: ۱۷۲٤)

عن علي قال كان النبي صلى الله عليه وسلم يوتر بثلاث يقرأ فيهن بتسع سور من المفصل يقرأ في كل ركعة بثلاث سور آخرهن قل هو الله أحد (سنن الترمذي، الرقم: ٤٦٠)

[۷] عن علي قال كان النبي صلى الله عليه وسلم يوتر بتسع سور من المفصل في الركعة الأولى ألهاكم التكاثر وإنا أنزلناه في ليلة القدر وإذا زلزلت وفي الثانية والعصر وإذا جاء نصر الله وإنا أعطيناك الكوثر وفي الثالثة قل يا أيها الكافرون وتبت وقل هو الله أحد (شرح معاني الأثار للطحاوي، الرقم: ۱۷۲٤)

عن علي قال كان النبي صلى الله عليه وسلم يوتر بثلاث يقرأ فيهن بتسع سور من المفصل يقرأ في كل ركعة بثلاث سور آخرهن قل هو الله أحد (سنن الترمذي، الرقم: ٤٦٠)

[۸] عن علي قال كان النبي صلى الله عليه وسلم يوتر بتسع سور من المفصل في الركعة الأولى ألهاكم التكاثر وإنا أنزلناه في ليلة القدر وإذا زلزلت وفي الثانية والعصر وإذا جاء نصر الله وإنا أعطيناك الكوثر وفي الثالثة قل يا أيها الكافرون وتبت وقل هو الله أحد (شرح معاني الأثار للطحاوي، الرقم: ۱۷۲٤)

عن علي قال كان النبي صلى الله عليه وسلم يوتر بثلاث يقرأ فيهن بتسع سور من المفصل يقرأ في كل ركعة بثلاث سور آخرهن قل هو الله أحد (سنن الترمذي، الرقم: ٤٦٠)

[۹] فتاوى محمودية ۹/۲۷۳

[۱۰] (إذا تعذر على المريض كل القيام) وهو الحقيقي ومثله الحكمي ذكره فقال (أو تعسر) كل القيام (بوجود ألم شديد أو خاف) بأن غلب في ظنه بتجربة سابقة أو إخبار طبيب مسلم حاذق أو ظهور الحال (زيادة المرض أو) خاف (بطأه) أي طول المرض (به) أي بالقيام (صلى قاعدا بركوع وسجود) لما روي عن عمران بن الحصين قال كان بي بواسير فسألت النبي صلى الله عليه وسلم عن الصلاة فقال صل قائما فإن لم تستطع فقاعدا فإن لم تستطع فعلى جنب زاد النسائي فإن لم تستطع فمستلقيا لا يكلف الله نفسا إلا وسعها (ويقعد كيف شاء) أي كيف يتيسر له بغير ضرر من تربع أو غيره (في الأصح) من غير كراهة كذا روي عن الإمام للعذر (وإلا) بأن قدر على بعض القيام (قام بقدر ما يمكنه) بلا زيادة مشقة ولو بالتحريمة وقراءة آية وإن حصل به ألم شديد يقعد ابتداء كما لو عجز وقعد ابتداء هو المذهب الصحيح لأن الطاعة بحسب الطاقة (وإن تعذر الركوع والسجود) وقدر على القعود ولو مستندا (صلى قاعدا بالإيماء) للركوع والسجود برأسه ولا يجزيه مضجع (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح صـ ٤۳٠-٤۳۱)

Check Also

ماہِ رمضان کے سنن و آداب- ۱

(۱) رمضان سے پہلے ہی رمضان کی تیاری شروع کر دیں۔ بعض بزرگانِ دین رمضان کی تیاری رمضان سے چھ ماہ قبل شروع فرما دیتے تھے...