سورۃ الھمزہ کی تفسیر

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

وَیۡلٌ   لِّکُلِّ ہُمَزَۃٍ   لُّمَزَۃِۣ ۙ﴿۱﴾‏الَّذِیۡ جَمَعَ  مَالًا  وَّ عَدَّدَہٗ ۙ﴿۲﴾‏‎ ‎یَحۡسَبُ اَنَّ مَالَہٗۤ  اَخۡلَدَہٗ ۚ﴿۳﴾‏‎ ‎کَلَّا  لَیُنۡۢبَذَنَّ فِی الۡحُطَمَۃِ ۫﴿ۖ۴﴾‏‎ ‎ وَ  مَاۤ  اَدۡرٰىکَ مَا  الۡحُطَمَۃُ ؕ﴿۵﴾‏‎ ‎نَارُ اللّٰہِ الۡمُوۡقَدَۃُ ۙ﴿۶﴾‏‎ ‎الَّتِیۡ  تَطَّلِعُ  عَلَی الۡاَفۡـِٕدَۃِ ؕ﴿۷﴾‏‎ ‎اِنَّہَا عَلَیۡہِمۡ  مُّؤۡصَدَۃٌ ۙ﴿۸﴾‏‎فِیۡ  عَمَدٍ  مُّمَدَّدَۃٍ ﴿۹﴾‏‎ ‎

بڑی خرابی ہے ہر ایسے شخص کے لئے جو پیٹھ پیچھے عیب نکالنے والا ہو اور آمنے سامنے طعنہ دینے والا ہو ﴿۱﴾ جو مال جمع کرتا ہو اور اس کو بار بار گنتا ہو ﴿۲﴾ وہ خیال کر رہا ہے کہ اس کا مال اس کو دوام بخشےگا کہ وہ کبھی نہ مرےگا ﴿۳﴾ ہر گز نہیں، ضرور بالضرور وہ شخص ایسی آگ میں ڈالا جائےگا، جس میں جو کچھ  پڑے، وہ اس کو توڑ پھوڑ دے ﴿۴﴾ اور آپ کو کچھ ممعلوم ہے کہ وہ توڑنے پھوڑنے والی آگ کیسی ہے؟ ﴿۵﴾ وہ اللہ تعالیٰ کی آگ ہے جو سلگائی گئی ہے ﴿۶﴾ جو دلوں تک پہونچ جائےگی ﴿۷﴾ وہ ان پر بند کر دی جائےگی ﴿۸﴾ بڑے لمبے لمبے ستونوں میں ﴿۹﴾

تفسیر

وَیۡلٌ لِّکُلِّ ہُمَزَۃٍ لُّمَزَۃِۣ ۙ﴿۱﴾‏

بڑی خرابی ہے ہر ایسے شخص کے لئے جو پیٹھ پیچھے عیب نکالنے والا ہو اور آمنے سامنے طعنہ دینے والا ہو﴿۱﴾

اس سورت میں تین سخت گناہوں پر عذاب شدید کی وعید آئی ہے اور پھر اس عذاب کی شدت بیان کی گئی ہے۔ وہ تین گناہ یہ ہیں: غیبت، استہزا (دوسروں کا مذاق اڑانا) اور خوب مال جمع کرنا (اور اس مال کے حقوق ادا نہ کرنا)۔

بہت سے مشرکین مکّہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو طعنہ دیتے تھے، آپ کا مذاق اڑاتے تھے اور غیبت کرتے تھے۔ اس سورت میں ان لوگوں کی مذمّت بیان کی گئی ہے اس طور پر کہ مسلمانوں کو ان کی برائی سے آگاہ کیا گیا ہے؛ تاکہ وہ ان گناہوں میں مبتلا نہ ہو جائیں۔

اس سورت میں پہلے جن دو بُرائیوں کا تذکرہ آیا ہے وہ ”همزه“ اور ”لمزه“ہیں۔

اکثر مفسّرین نے ذکر کیا ہے کہ ”همزه“ – جو لفظ ھمز سے ماخوذ ہے– کا معنی وہ آدمی ہے جو دوسرے کے پیٹھ پیچھے اس کے عیوب کا تذکرہ کرتا ہے اور ”لمزه“ – جو لفظ لمز سے ماخوذ ہے – کا معنی وہ آدمی ہے جو کسی کے آمنے سامنے اس کو طعنہ دیتا ہے اور بُرا بھلا کہتا ہے۔

یہ دونوں گناہ سماجی اور اخلاقی اعتبار سے نہایت بُرے اور خطرناک ہیں۔ قرآن وحدیث میں ان دونوں گناہوں کے متعلق شدید وعیدیں وارد ہوئی ہیں؛ لیکن یہاں ایک قابل غور بات یہ ہے کہ اگر ایک اعتبار سے دیکھا جائے، تو ”غیبت“ استہزاء سے زیادہ بڑا گناہ ہے، کیونکہ غیبت کرنے والا کسی ایسے شخص کی غیبت کرتا ہے، جو حاضر نہیں ہے اور جو اپنا دفاع نہیں کر سکتا ہے، اسی وجہ سے یہ گناہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔

البتہ اگر دوسرے اعتبار سے دیکھا جائے، تو ”استہزاء“ غیبت سے زیادہ شدید ہے؛ کیونکہ کسی کے روبرو اس کو بُرا بھلا کہنے میں اس کی توہین اور تذلیل بھی ہوتی ہے اور اس کے دل آزاری کے باعث ہوتی ہے، تو اس اعتبار سے استہزاء کی ایذا غیبت کی ایذا سے بھی اشدّ ہے (کیونکہ غیبت آدمی کے پشت کے پیچھے ہوتی ہے اور آدمی کو اس کا علم نہیں ہوتا ہے)۔

وَیۡلٌ لِّکُلِّ هُمَزَۃٍ لُّمَزَۃِۣ ۙ﴿۱﴾‏‎ ‎ ‎

بڑی خرابی ہے ہر ایسے شخص کے لئے جو پیٹھ پیچھے عیب نکالنے والا ہو اور آمنے سامنے طعنہ دینے والا ہو﴿۱﴾

اس آیت کریمہ میں غیبت کا ذکر آیا ہے۔ غیبت ایک نہایت بُرا گناہ ہے اور اس سے معاشرہ میں بے شمار خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔

غیبت
قرآن وحدیث میں غیبت کے متعلق ‏شدید وعیدیں آئی ہیں۔ چنانچہ حدیث شریف میں وارد ہے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے صحابۂ کرام رضی الله عنہم سے ‏پوچھا کہ تم جانتے ہو کہ غیبت کیا ہے؟ صحابۂ کرام رضی الله عنہم نے عرض کیا: الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم ‏ہی خوب جانتے ہیں۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: غیبت یہ ہے کہ اپنے بھائی کی ایسی بات ذکر کرے، جو اس کو بُری ‏لگے۔ کسی نے عرض کیا کہ اگر دراصل اس میں وہ عیب ہو تو بھی غیبت ہے؟ حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اگر عیب ‏ہے اور تو نے بیان کیا تب ہی تو غیبت ہے ورنہ وہ تو بہتان ہے۔ (مسلم)‏

آجکل ہم دیکھتے ہیں کہ آپس میں محبت نہیں ہوتی ہے، لڑائیاں بڑھتی جا رہی ہیں اور لوگوں میں تفریق ہوتی جا رہی ہے اس ‏کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگ غیبت کے گناہ میں مبتلا ہیں۔‏

نیز اکثرو بیشتر جب لوگ کسی مجلس میں بیٹھ کر گفتگو کرتے ہیں، تو وہ لوگوں کے احوال کے بارے میں بات کرتے ہیں، تو ‏بہت سی دفعہ مجلس میں لوگوں کی غیبت ہوتی ہے۔ لوگوں کے احوال ذکر کرنے میں ہم یہ سوچتے ہیں کہ ہم اچھا کام کر ‏رہے ہیں، جبکہ حقیقتِ حال یہ ہے کہ ہم زیادہ تر غیبت میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور لوگوں کے عیوب تلاشی کرتے ہیں اور ‏نکتہ چینی کرتے ہیں؛ لہذا اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم گناہ میں مبتلا ہوتے ہیں اور ہمیں اس کا احساس بھی نہیں ہوتا ہے۔

چنانچہ انسان جب غیبت کے گناہ میں مبتلا ہو جاتا ہے، تو بسا اوقات وہ ایک قدم آگے بڑھ کر چغل خوری کے مہلک گناہ میں بھی پھنس جاتا ہے۔

چغل خوری

چغل خوری ایک سنگین گناہ ہے۔ چغل خوری سے آپس میں نفرت اور تفریق پیدا ہوتی ہے؛ لہذا جب کوئی شخص ‏چغل خوری کرتا ہے، تو اس کو اس بات کا احساس نہیں ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کے درمیان پھوٹ ڈال رہا ہے اور ان میں ‏تفریق پیدا کر رہا ہے۔ یہ گناہ اتنا سنگین اور شدید ہے کہ اس کے ذریعہ سے لوگوں کے دلوں میں نفرت پیدا ہوتی ہے اور ‏خاندان والوں اور دوستوں کے درمیان بغض، عداوت اور دشمنی پیدا ہوتی ہے۔

احادیث مبارکہ میں چغل خوری کے متعلق شدید وعیدیں آئی ہیں۔

حدیث شریف میں آیا ہے‎:‎

وإن شرار عباد الله من هذه الأمة المشاءون بالنميمة المفرقون بين الأحبة الباغون للبرآء العنت (الجامع ‏الكبير، الرقم: ٧٣٤٣)‏

الله تعالیٰ کے بدترین بندے وہ ہیں جو چغل خوری کرتے ہیں اور دوستوں کے درمیان تفریق کرتے ہیں اور بے گناہ ‏لوگوں ‏کے عیب تلاش کرتے رہتے ہیں۔

ایک دوسری حدیث شریف میں آیا ہے کہ ایک دفعہ حضرت  عبد اللہ بن عبّاس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے، تو فرمایا کہ ”بے شک ان دونوں (قبروالوں) کو عذاب دیا جارہا ہے اور ان کو کسی بڑی چیز کی وجہ سے عذاب نہیں دیا جا رہا ہے (کسی ایسی چیز کی وجہ سے عذاب نہیں دیا جا رہا ہے، جس سے بچنا دشوار ہو) بہر حال ان دونوں میں سے ایک، تو وہ پیشاب (کے چھینٹوں) سے نہیں بچتا تھا (جس کی وجہ سے عذاب میں مبتلا ہے) اور دوسرا چغل خوری کرتا تھا (لوگوں کی باتیں اِدھر سے اُدھر نقل کرتا تھا؛ تاکہ ان کے درمیان فتنہ پھیلائیں۔ جس کی وجہ سے وہ عذاب میں گرفتار ہے)۔“ (صحیح مسلم)

ان دونوں احادیث سے واضح ہو رہا ہے کہ بدترین لوگ وہ ہیں جو چغل خوری کرتے ہیں اور لوگوں میں فتنہ پیدا کرتے ‏ہیں۔

بہت سے لوگوں کی نیتیں بُری ہوتی ہیں۔ وہ بے گناہ لوگوں کے عیب تلاش کرتے رہتے ہیں، نیک لوگوں پر تہمت لگا کر ان کے عیوب نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا صرف ایک مقصد ہوتا ہے کہ ‏وہ دوسرے ‏لوگوں کو بدنام اور رسوا کریں۔

‏ اس قسم کے لوگ اگر چہ اپنے آپ کو متقی، پرہیزگار اور دوسروں کا خیر خواہ ظاہر کرتے ہیں؛ لیکن ان کی کرتوتوں کی وجہ ‏سے ‏خاندانوں اور معاشرہ میں نفرت وعداوت جنم لیتی ہے جس کی وجہ سے خاندانوں میں باہم محبّت والفت باقی نہیں رہتی ہے؛ لہذا ایسے ‏لوگوں سے ‏جو بظاہر خیر خواہی کا دعوی کرتے ہیں اور حقیقیت میں فتنہ وفساد پھیلاتے ہیں بچ کر رہنا ضروری ہے۔

الَّذِیۡ جَمَعَ مَالًا وَّعَدَّدَہٗ ۙ﴿۲﴾

جو مال جمع کرتا ہو اور اس کو بار بار گنتا ہو ﴿۲﴾

اس آیت کریمہ میں تیسرے بڑے گناہ کا ذکر آیا ہے۔ وہ گناہ یہ ہے کہ انسان خوب مال جمع کرنے کی فکر میں رہتا ہے اور ہر وقت مال گن گن کر رکھتا ہے۔ جس انسان کے دل میں مال کی بےحد محبّت، لالچ اور طمع ہوتی ہے، تو یہ مال کی لالچ اس کو اچھے کاموں میں مال خرچ کرنے سے روکتا ہے، جہاں اللہ تعالیٰ نے مال خرچ کرنے کا حکم دیا ہے۔

اس آیت کریمہ میں جو وعید وارد ہوئی ہے وہ تمام مال داروں اور اہل ثروت کے لئے نہیں ہے؛ بلکہ وہ ان مال داروں کے لئے ہے جو مال اکٹھا کر کے رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا نہیں کرتے ہیں، نیز بندوں کے حقوق اور غرباء اور مساکین کے حقوق ادا نہیں کرتے ہیں۔

‎یَحۡسَبُ اَنَّ مَالَہٗۤ  اَخۡلَدَہٗ ۚ﴿۳﴾ کَلَّا لَیُنۡۢبَذَنَّ فِی الۡحُطَمَۃِ ۫﴿۴﴾‏‎ ‎وَمَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا الۡحُطَمَۃُ ؕ﴿۵﴾‏‎ ‎نَارُ اللّٰہِ الۡمُوۡقَدَۃُ ۙ﴿۶﴾‏‎ ‎الَّتِیۡ تَطَّلِعُ عَلَی الۡاَفۡـِٕدَۃِ ؕ﴿۷﴾

وہ خیال کرتا ہے کہ اس کا مال اس کو دوام بخشےگا کہ وہ  کبھی نہ مرےگا ﴿۳﴾ ہرگز نہیں، ضرور بالضرور وہ شخص ایسی آگ میں ڈالا جائےگا، جس میں جو کچھ پڑے، وہ اس کو توڑ پھوڑ دے ﴿۴﴾ اور آپ کو کچھ ممعلوم ہے کہ وہ توڑنے پھوڑنے والی آگ کیسی ہے؟ ﴿۵﴾ وہ اللہ تعالیٰ کی آگ ہے جو سلگائی گئی ہے ﴿۶﴾ جو دلوں تک پہونچ جائےگی ﴿۷﴾

عام طور پر دنیا میں ایسا ہوتا ہے کہ جب کسی انسان کے بدن میں آگ لگتی ہے، تو سب سے پہلے آگ انسان کے ظاہری اعضا جلاتی ہے، پھر آگ انسان کے دل اور دوسرے اندرونی اعضا تک پہنچتی ہے؛ لیکن جہنّم کی آگ کی شدّت کا حال دنیوی آگ سے جداگانہ ہے۔ اس کی شدّت کا حال یہ ہے کہ وہ جہنّمیوں کے ظاہری اعضا جلانے کے ساتھ ساتھ فوراً ان کے دلوں تک پہونچ جائےگی۔

لہذا جب آگ انسان کے دل کو فوراً پہنچےگی، تو وہ بے پناہ درد اور تکلیف کتنی سخت ہوگی، جو اس وقت انسان محسوس کرےگا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو جہنم کی آگ سے بچائے۔

اِنَّہَا عَلَیۡہِمۡ  مُّؤۡصَدَۃٌ  ۙ﴿۸﴾ ‏‎فِیۡ عَمَدٍ مُّمَدَّدَۃٍ ﴿۹﴾‏‎ ‎

وہ ان پر بند کر دی جائےگی ﴿۸﴾ بڑے لمبے لمبے ستونوں میں ﴿۹﴾

اس آیت کریمہ میں بیان کیا گیا ہے کہ جب اہل جہنّم آگ میں ڈالے جائیں گے، تو اہل جہنّم کو لمبے لمبے ستونوں میں گھیر لئے جائیں گے اور آگ ان پر بند کر دی جائےگی یعنی ان کو جہنّم میں اس طرح بند کر دیا جائےگا کہ ان کے لئے وہاں سے بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں ملےگا او روہ اسی میں ہمیشہ جلتے رہیں گے۔

Check Also

سورہ فلق اور سورہ ناس کی تفسیر

قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ ‎﴿١﴾‏ مِن شَرِّ مَا خَلَقَ ‎﴿٢﴾‏ وَمِن شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ ‎﴿٣﴾‏ وَمِن شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ ‎﴿٤﴾‏ وَمِن …