مسلمان کی حاملہ نصرانی یا یہودی بیوی کی تدفین کہاں کی جائے؟

اگر کوئی یہودیہ یا نصرانیہ کسی مسلمان کے نکاح میں ہو اور اس کا حالتِ حمل میں انتقال ہو جائے، تو اس صورت میں مسئلہ یہ ہے کہ

اگر بچہ ماں کے پیٹ میں زندہ ہو، تو اس کو آپریشن کے ذریعہ نکالا جائےگا اور یہودیہ یا نصرانیہ بیوی کو کافروں کے قبرستان میں دفن کیا جائےگا۔

اگر بچہ زندہ نہ ہو، تو یہودیہ یا نصرانیہ بیوی کو بچہ کے ساتھ دفن کیا جائےگا، اس صورت میں تدفین کے سلسلہ میں دو صورتوں میں سے کوئی ایک صورت ہوگی:

(۱) اگر بیوی حالتِ حمل میں چار ماہ گزرنے سے پہلے مر جائے۔ تو اس صورت میں بیوی کو کافروں کے قبرستان میں دفن کر دیا جائےگا؛ کیونکہ ابھی تک بچّہ میں روح نہیں ڈالی گئی ہے۔

(۲) اگر بیوی حالتِ حمل میں چار ماہ گزرنے کے بعد مر جائے اور بچّہ بھی ماں کے پیٹ میں مر جائے، (تو اس صورت میں بچّہ اپنے مسلمان باپ کے مذہب کے تابع ہوگا، کیونکہ چار ماہ کے بعد بچہ کے اندر روح ڈالی جائےگی)۔ اب بیوی کو بچہ سمیت کہاں دفن کیا جائےگا، تو ا س سلسلہ میں کتبِ فقہ میں تین اقوال موجود ہیں:

(ا) بیوی کو کافروں کے قبرستان میں دفن کیا جائےگا؛ کیونکہ وہ کافرہ ہے۔

(ب) بیوی کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا؛ کیونکہ بچّہ مسلمان ہے۔

(ج) بیوی کو نہ تو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائےگا اور نہ ہی کافروں کے قبرستان میں؛ بلکہ اس کو علیحدہ دفن کیا جائےگا اور اس کو قبر میں اس ہیئت پر دفن کیا جائےگا کہ اس کی پیٹھ قبلہ کی طرف کی جائے؛ تاکہ بچّہ کا چہرہ قبلے کی طرف ہو جائے۔ مسلکِ حنفی میں یہی قول راجح ہے۔ [۱]

حاملہ بیوی کے انتقال کی صورت میں بچہ کا حکم

اگر حاملہ بیوی مر جائے اور اس کے پیٹ میں بچہ زندہ ہو، تو بچہ کو آپریشن کے ذریعہ نکالا جائےگا اور اگر بچّہ زندہ نہ ہو، تو اس کو نہیں نکالا جائےگا۔ [۲]

Source: http://ihyaauddeen.co.za/?p=3045


 

[۱] واختلف المشايخ في دفنهم قال بعضهم في مقابر المشركين وقال بعضهم في مقابر المسلمين وقال بعضهم يتخذ لهم مقبرة على حدة (الفتاوى الهندية ۱/۱۵۹)

اختلط موتانا بكفار ولا علامة اعتبر الأكثر فإن استووا غسلوا واختلف في الصلاة عليهم وحل دفنهم كدفن ذمية حبلى من مسلم قالوا والأحوط دفنها على حدة ويجعل ظهرها إلى القبلة لأن وجه الولد لظهرها

قال العلامة ابن عابدين – رحمه الله -: (قوله:كدفن ذمية) جعل الأول مشبها بهذا لأنه لا رواية فيه عن الإمام بل فيه اختلاف المشايخ قياسا على هذه المسألة فإنه اختلف فيها الصحابة رضي الله تعالى عنهم على ثلاثة أقوال فقال بعضهم تدفن في مقابرنا ترجيحا لجانب الولد وبعضهم في مقابر المشركين لأن الولد في حكم جزء منها ما دام في بطنها وقال واثلة بن الأسقع يتخذ لها مقبرة على حدة  قال في الحلية وهذا أحوط والظاهر كما أفصح به بعضهم أن المسألة مصورة فيما إذا نفخ فيه الروح وإلا دفنت في مقابر المشركين.قوله ( لأن وجه الولد لظهرها ) أي والولد مسلم تبعا لأبيه فيوجه إلى القبلة بهذه الصفة ط (رد المحتار ۲/۲٠۱)

وإذا اختلط قتلى المسلمين بقتلى الكفار أو موتاهم بموتاهم فإن كان المسلمون أكثر يصلي عليهم وينوي المسلمين وإلا فلا إلا من عرف أنه من المسلمين ويتخذ لهم مقبرة على حدة كذمية ماتت حبلى بمسلم (مراقي الفلاح صـ ٦۳٠)

قال العلامة الطحطاوي – رحمه الله -: قوله ( كذمية الخ ) هذه المسئلة اختلف فيها الصحابة رجح بعضهم جانب الولد فقال تدفن في مقابر المسلمين وبعضهم جانبها فإن الولد في حكم جزئها ما دام في بطنها فتدفن في مقابر المشركين وقال عقبة بن عامر يتخذ لها مقبرة على حدة أفاده في الشرح أي ويجعل ظهرها إلى القبلة لأن وجه الولد إليه (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح صـ ٦۳٠)

[۲] (حامل ماتت وولدها حي) يضطرب (شق بطنها) من الأيسر (ويخرج ولدها) ولو بالعكس وخيف على الأم قطع وأخرج لو ميتا وإلا لا كما في كراهة الاختيار (الدر المختار ۲/۲۳۸)

قال العلامة ابن عابدين – رحمه الله -: (قوله: ولو بالعكس) بأن مات الولد في بطنها وهي حية قوله (قطع) أي بأن تدخل القابلة يدها في الفرج وتقطعه بآلة في يدها بعد تحقق موته (قوله: لو ميتا) لا وجه له بعد قوله ولو بالعكس ط قوله (وإلا لا) أي ولو كان حيا لا يجوز تقطيعه لأن موت الأم به موهوم فلا يجوز قتل آدمي حي لأمر موهوم (رد المحتار ۲/۲۳۸)

Check Also

اتباع سنت کا اہتمام – ۱۰

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ – قسط دوم حضرت مولانا اشرف علی …