بسم الله الرحمن الرحيم
شرم وحیا کا فقدان – وبا کا بنیادی سبب
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے پھل کی خوبصورتی اور حفاظت کے لیے ”چھلکا“ بنایا ہے، جب ”چھلکا“ اُتر جاتا ہے، تو پھل کی خوب صورتی ختم ہو جاتی ہے اور وہ محفوظ نہیں رہتا ہے؛ بلکہ وہ بہت جلد خراب ہو جاتا ہے اور اس کے اندر بدبو پیدا ہو جاتی ہے۔
اسی طرح اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انسان کی خوب صورتی کے لیے اور سردی و گرمی سے بچاؤ کے لیے ”لباس“ پیدا کیا ہے۔ جب تک یہ لباس اس کے بدن پر رہتا ہے، انسان کی خوبصورتی باقی رہتی ہے اور وہ سردی اور گرمی سے محفوظ رہتا ہے اور جب اس کا لباس اتر جاتا ہے، تو اس کی ظاہری خوبصورتی زائل ہو جاتی ہے اور وہ سردی اور گرمی سے محفوظ نہیں رہتا ہے۔
جس طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کی زینت اور اس کے جسم کی حفاظت کے لیے ظاہری لباس پیدا فرمایا ہے، اسی طرح انسان کی باطنی خوبصورتی اور اس کی روح کی حفاظت کے لیے ”روحانی لباس“ بھی پیدا کیا ہے۔ روحانی لباس کیا ہے؟ روحانی لباس ”حیا“ ہے۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَّ جَعَلَ لَکُمۡ سَرَابِیۡلَ تَقِیۡکُمُ الۡحَرَّوَسَرَابِیۡلَ تَقِیۡکُمۡ بَاۡسَکُمۡ
اور تمہارے لیے ایسے کُرتے بنائے جو گرمی سے تمہاری حفاظت کرتے ہیں اور ایسے کُرتے بنائے جو تمہاری لڑائی کے وقت حفاظت کرتے ہیں۔
دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ قَدۡ اَنۡزَلۡنَا عَلَیۡکُمۡ لِبَاسًا یُّوَارِیۡ سَوۡاٰتِکُمۡ وَرِیۡشًا ؕ وَ لِبَاسُ التَّقۡوٰی ۙ ذٰلِکَ خَیۡرٌ
اے آدم علیہ السلام کی اولاد!ہم نے تمہارے لیے لباس پیدا کیا ہے، جو تمہارے پردہ والے بدن کو چھپاتا ہے اور موجب زینت بھی ہے اور تقوی کا لباس (اس سے بھی) بڑھ کر ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے کہ ” حیاایمان کا شعبہ ہے“۔ (بخاری شریف) دوسری حدیث شریف میں وارد ہے کہ ”ہر مذہب میں ایک نمایاں ”خلق“ ہے اور اسلام میں نمایاں خلق ”حیا“ ہے۔“ (ابن ماجہ) یہ بات ذہن میں رہنی چاہیئے کہ جب ہم ”حیا“ کی بات کرتے ہیں عام طور پر ہمارے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ ”حیا“ کا تعلق لباس سے ہے یعنی ہمیں لباس میں شرم وحیا کا خیال رکھنا چاہیئے، جب کہ حیا کا تعلق صرف لباس سے نہیں ہے (اگر چہ لباس میں شرم وحیا کا لحاظ انتہائی اہم ہے؛ مگر شرم وحیا لباس تک منحصر نہیں ہے)؛ بلکہ حیا کے اندر یہ بھی شامل ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی اور مخلوق کے ساتھ معاملہ کرنے میں اسلامی آداب اور شرعی طریقوں اور اصول وضوابط کا لحاظ رکھے۔
اگر ہم رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیّبہ کا مطالعہ کریں، تو ہمیں اچھی طرح معلوم ہو جائےگا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عبادت، معاشرت، کھانے پینے، سونے اور لوگوں کے ساتھ معاملات میں شرم وحیا کا زندہ نمونہ تھے، یہاں تک کہ طبعی اور بشری ضرورتوں کو پوری کرنے میں بھی پورے طور پر”حیا“ کاخیال رکھتے تھے اور ذرّہ برابر حیا سے غفلت نہیں برتتے تھے۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا خصوصی طورپر اہتمام فرمایا کہ صحابۂ کرام کی زندگی میں صفت”حیا“ اس طرح رچ بس جائے کہ وہ پورے طور پر کافروں سے علیحدہ ہو جائیں اور ان کی زندگی کا نقشہ کافروں سے پورے طور پر ممتاز رہے اور ان کے درمیان تھوڑی بھی مشابہت نہ رہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مبارک زندگی کے تمام شعبوں میں خود بھی ”حیا “ کا بہت زیادہ اہتمام فرمایا اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی اس کی تاکید فرمائی، اس لیے کہ ”حیا“ ایک ڈھال ہے، جو انسان کے ایمان اور اخلاق کی حفاظت کرتی ہے۔ جب انسان کے اندر یہ صفت حیا پیدا ہو جاتی ہے، تو وہ تمام لوگوں کے ساتھ عزّت واحترام اوروقار کےساتھ پیش آتا ہے۔
ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے حیا (شرم) کرو، جیسا کہ اس سے حیا کرنے کاحق ہے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: الحمد للہ ! ہم اللہ تعالیٰ سے شرم کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ساتھ حیا کرنے کا مطلب وہ نہیں جو تم سمجھتے ہو؛ بلکہ اللہ تعالیٰ سے حیا کرنے کا مطلب یہ ہےکہ تم سر کی اور جن اعضاء کو سر نے جمع کیا ہے، (ہر وقت گناہوں سے ) ان کی نگہداشت کرو اور پیٹ کی اور جن اعضاء کو پیٹ نے سمیٹا ہے، (ہر وقت گناہوں سے) ان کی نگہداشت کرو اور موت اور فنا ہونے کو ہمیشہ یاد کرو۔ جو شخص آخرت کو اپنا مقصد بناتا ہے وہ دنیا کی زینت سے منھ موڑ لیتا ہے۔ لہذا جس شخص نے یہ کام کیے، اس نے یقیناً اللہ تعالیٰ سے حیا کی، جیسا ان سے حیا کرنے کا حق ہے۔ (سنن ترمذی) ایک دوسری حدیث شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آگاہ فرمایا ہے کہ ایک ایسا خراب زمانہ آئےگا کہ اس میں لوگوں سے حیا اٹھ جائےگی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس زمانہ کے بارے میں فرمایا کہ اس میں اہلِ علم کی پیروی نہیں کی جائے گیاور حلیم (بردبار آدمی) سے حیا نہیں کی جائے گی۔ اس کے زمانہ کے لوگوں کے دل عجمیوں کے دل ہوں گے اور ان کے زبانیں عربوں کی زبانیں ہوں گی۔ (مجمع الزوائد) اس حدیث شریف میں پیشن گوئی کی گئی ہے کہ مسلمان اسلامی اخلاق و اقدار پر باقی نہیں رہیں گےاور کافروں کی نقل کریں گے۔ آجکل ہم کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہے ہیں کہ مسلمانوں کی زندگی سے ”حیا“ رخصت ہو چکی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ اقوال وافعال میں کافروں کے طریقوں کی پیروی کر رہے ہیں اور مختلف قسم کی بے حیائیوں اور برائیوں میں مبتلا ہیں جیسے تصویر سازی، ٹلی ویزن دیکھنا اور انٹرنیٹ کا غلط کاموں میں استعمال کرنا۔ موجودہ دور میں اسمارٹ فون عام ہو چکا ہے، جس کی وجہ سے گناہ کرنا اور زیادہ آسان ہو گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا میں برائیاں عام ہو چکی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جب انسا ن سے ”حیا “ رخصت ہو جاتی ہے، تو اس کا دین وایمان خطرہ میں پڑ جاتا ہے۔ وہ لوگوں کے ساتھ ادب واحترام کے ساتھ معاملہ نہیں کرتا ہے اور ان کے حقوق کی فکر نہیں کرتا ہے؛ بلکہ صرف اپنا دنیوی مفاد پیش نظر رکھتا ہے بےحیائی اور برائی کی جگہوں پر جاتا ہے، بُرے دوستوں کے ساتھ رہتا ہے، گانا سنتا ہے اور انٹرنیٹ اور موبائل پر حرام چیزیں دیکھتا ہے۔ ان سب برائیوں میں ملوّث ہونے کی وجہ صرف یہ ہےکہ اس کی زندگی میں ”حیا “ باقی نہیں ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جب کوئی قوم بُرائی میں مبتلا ہو جاتی ہے، تو ان میں طاعون، وبا اور ایسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں، جو پچھلے زمانے کے لوگوں میں نہیں دیکھی گئی اور ایسی مصیبتیں اور فتنے لوگوں کو حیران اور پریشان چھوڑ دےگی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی حالت میں صرف ایک حل بتایا ہے اور وہ یہ ہے کہ لوگ اللہ تعالیٰ کے سامنے توبہ کریں، گریہ وزاری کریں اور خوب دُعا کریں، جس طرح ڈوبنے والا دُعا کرتا ہے۔
ہم دُعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو زندگی کے تمام امور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر عمل کرنے اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
Source: http://ihyaauddeen.co.za/?p=17011