شكا سيدنا عبد الرحمن بن عوف رضي الله عنه رجلا يؤذيه إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم للرجل:
لا تؤذ رجلا من أهل بدر، فإن أحدكم لو أنفق مثل أُحُد ذهبا، ما أدرك مد أحدهم (مما أنفقوا في سبيل الله) ولا نصيفه (من صحيح مسلم، الرقم: ٢٥٤١، المعجم الصغير، الرقم: ٥٨٠)
ایک مرتبہ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص کی شکایت کی، جس نے ان کو تکلیف پہنچائی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے فرمایا:
ایسے آدمی کو تکلیف نہ پہنچاؤ، جس نے غزوۂ بدر میں شرکت کی ہے۔ ان کا حال یہ ہے کہ اگر تم اُحد پہاڑ کے برابر دین کے لیے سونا خرچ کر دو؛ پھر بھی تم ان لوگوں کے ایک مُد کے برابر (ثواب) حاصل نہ کر سکوگے، جو انہوں نے اللہ کی راہ میں خرچ کیا؛ بل کہ تم ان کے آدھے مُد کے برابر بھی ثواب حاصل نہ کر سکوگے، جو انہوں نے اللہ کے راستے میں خرچ کیا۔
حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے ذمے خلیفہ مقرر کرنے کی ذمہ داری
حضرت عمر رضی الله عنہ نے اپنے انتقال سے پہلے چھ صحابہ کرام رضی الله عنہم کی ایک جماعت بنائی تھی، جس میں درج ذیل چھ صحابہ کرام رضی الله عنہم تھے: حضرت علی رضی الله عنہ، حضرت عثمان رضی الله عنہ، حضرت زبیر رضی الله عنہ، حضرت طلحہ رضی الله عنہ، حضرت سعد رضی الله عنہ اور حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ۔
ان چھ صحابہ کرام رضی الله عنہم کے بارے میں حضرت عمر رضی الله عنہ نے فرمایا کہ میں ان چھ صحابہ کرام رضی الله عنہم سے زیادہ کسی اور کو خلافت کا اہل نہیں سمجھتا ہوں؛ کیونکہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم اس دنیا سے رخصت فرما گئے، اس حال میں کہ آپ ان سے بہت خوش اور راضی تھے۔
جب حضرت عمر رضی الله عنہ کا انتقال ہوا، تو حضرت مقداد بن اسود رضی الله عنہ نے ان حضرات کو حضرت مسور بن مخرمہ رضی الله عنہ کے گھر میں جمع کیا۔ یہ حضرات فیصلہ کرنے کے لیے گھر کے اندر بیٹھ گئے اور حضرت ابو طلحہ رضی الله عنہ پہرہ دینے لگے؛ تاکہ کوئی ان کے پاس نہ جائے اور خلل نہ کرے۔
شوریٰ والوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ان میں سے تین افراد اپنے حق کو شوریٰ کے کسی دوسرے ساتھی کے حوالے کر دیں؛ چناں چہ حضرت زبیر رضی الله عنہ نے اپنا حق حضرت علی رضی الله عنہ کو دے دیا۔ حضرت سعد رضی الله عنہ نے اپنا حق حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ کے سپرد کر دیا اور حضرت طلحہ رضی الله عنہ نے اپنا حق حضرت عثمان رضی الله عنہ کے حوالے کر دیا۔
حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ بھی اس شرط پر اپنا حق چھوڑنے پر راضی ہو گئے کہ یہ دونوں حضرات (یعنی حضرت علی رضی الله عنہ اور حضرت عثمان رضی الله عنہ) انہیں یہ فیصلہ کرنے کی اجازت دیں کہ وہ ان دونوں میں سے کسی ایک کو خلیفہ مقرر کرے؛ لہذا حضرت عثمان رضی الله عنہ اور حضرت علی رضی الله عنہ نے ان کی تجویز قبول کر لی اور یہ وعدہ بھی کیا کہ وہ ان کے فیصلے کو دل سے قبول کریں گے۔ اس کے بعد شوریٰ والے چلے گئے۔
اگلے تین دنوں اور راتوں میں حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ مدینہ منورہ کے لوگوں کے پاس گئے اور ان سے پوچھا کہ ان دونوں میں سے کس کو خلیفہ بنایا جائے۔
ان تین دنوں اور راتوں میں حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ بہت کم سوئے؛ بل کہ نماز، دعا، استخارہ اور لوگوں سے مشورہ کرنے میں مشغول رہے۔
تین دن اور رات گزر جانے کے بعد حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ اپنے بھتیجے حضرت مسور بن مخرمہ رضی الله عنہ کے گھر تشریف لائے۔ جب وہ وہاں پہنچے، تو انہوں نے دیکھا کہ حضرت مسور بن مخرمہ سو رہے تھے۔ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ نے ان کو بیدار کیا اور ان سے کہا کہ اے مسور! تم سو رہے ہو؟ الله کی قسم! میں تین دنوں سے بہت کم سویا۔
حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ نے پھر ان سے کہا کہ جاؤ اور حضرت علی رضی الله عنہ اور حضرت عثمان رضی الله عنہ کو بلا کر لے آؤ۔ حضرت مسور رضی الله عنہ نے پوچھا: میں پہلے کن کو بلاؤں؟ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ نے جواب دیا: تم جن کو چاہو، پہلے بلا لو۔
پھر حضرت مسور رضی الله عنہ حضرت علی رضی الله عنہ اور حضرت عثمان رضی الله عنہ کے پاس گئے اور ان کو بتایا کہ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ ان دونوں کو بلا رہے ہیں؛ چناں چہ وہ دونوں ان کے ساتھ چل پڑے۔
جب تینوں حضرات حضرت مسور رضی الله عنہ کے گھر پہنچے، تو انہوں نے دیکھا کہ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ نماز پڑھ رہے تھے۔
جب وہ نماز سے فارغ ہوئے، تو حضرت علی رضی الله عنہ اور حضرت عثمان رضی الله عنہ کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ میں نے لوگوں سے آپ دونوں کے بارے میں پوچھا، تو مجھے کوئی ایسا شخص نہیں ملا، جو تم دونوں کے علاوہ مرتبہ کے لحاظ سے کسی اور کو آپ دونوں سے بڑا اور بہتر سمجھتا ہو۔
اس کے بعد حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ نے حضرت علی رضی الله عنہ اور حضرت عثمان رضی الله عنہ سے عہد لیا کہ ان دونوں میں سے جس کو وہ خلیفہ مقرر کریں گے، وہ ضرور عدل وانصاف کے ساتھ حکمرانی کریں گے اور جس کو خلیفہ مقرر نہیں کیا جائےگا، وہ فیصلہ سے خوش ہوگا اور دوسرے کو خلیفہ تسلیم کرےگا۔
اس کے بعد حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ نے وہ پگڑی پہنی، جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ان کے سر پر باندھی تھی اور اپنی تلوار لٹکائی؛ پھر حضرت علی رضی الله عنہ اور حضرت عثمان رضی الله عنہ کے ساتھ مسجد تشریف لے گئے۔
حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ نے اعلان کرایا کہ لوگ مسجد میں جمع ہو جائیں؛ چناں چہ لوگ مسجد میں جمع ہونے لگے؛ یہاں تک کہ مسجد لوگوں سے بھر گئی۔
حضرت عثمان رضی الله عنہ کو بیٹھنے کی جگہ نہ ملی، تو وہ حیا کی وجہ سے مسجد میں تمام لوگوں کے پیچھے بیٹھ گئے۔
پھر حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی الله عنہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے منبر پر چڑھے اور اس سیڑھی پر کھڑے ہو گئے، جس پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم بیٹھتے تھے۔ وہ کافی دیر تک وہاں کھڑے رہے اور ایک لمبی دعا کی۔
اس کے بعد انہوں نے لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا کہ اے لوگو! میں نے تم سے (حضرت علی رضی الله عنہ اور حضرت عثمان رضی الله عنہ کے بارے میں) پوشیدہ اور علانیہ، اجتماعی اور انفرادی طور پر پوچھا تھا اور میں نے دیکھا کہ تم لوگ کسی اور کو ان دونوں صحابہ کے برابر نہیں سمجھتے ہو۔
اس کے بعد حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ نے حضرت عثمان رضی الله عنہ کا ہاتھ پکڑا اور انہیں خلیفہ مقرر کیا۔ پھر انہوں نے حضرت عثمان رضی الله عنہ کو اپنے نیچے، منبر کی دوسری سیڑھی پر بٹھایا؛ تاکہ لوگ ان کے پاس آئیں اور ان کے ہاتھ پر بیعت کریں۔
پورے مجمع میں سے سب سے پہلے حضرت علی رضی الله عنہ ہی تشریف لائے اور حضرت عثمان رضی الله عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ (البدایہ والنہایہ ۷/ ۲۹۷-۲۹۸)