حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی پوری زندگی کے واقعات اس کثرت سے اس چیز کی مثالیں ہیں کہ ان کا احاطہ بھی دشوار ہے۔
غزوہ تبوک کے وقت جب کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے چندہ کی تحریک فرمائی اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اس وقت جو کچھ گھر میں رکھا تھا، سب کچھ جمع کرکے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دینا مشہور واقعہ ہے اور جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ ابو بکر! گھر میں کیا چھوڑا؟ تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ اور اس کا رسول (یعنی ان کی خوشنودی کا ذخیرہ) گھر میں موجود ہے۔
“حکایات صحابہ” میں یہ قصہ مفصل ذکر کیا گیا ہے اور اس نوع کے دوسرے حضرات کے متعدد واقعات “حکایات صحابہؓ” میں بھی لکھ چکا ہوں۔ وہاں دیکھا جائے، تو معلوم ہو کہ ایثار، ہمدردی اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنا انہیں حضرات کا حصہ تھا کہ اس کا کچھ بھی شائبہ ہم لوگوں کو مل جائے، تو نہ معلوم ہم اس کو کیا سمجھیں؛ لیکن ان حضرات کے یہاں یہ روز مرّہ کے معمولی واقعات تھے۔
بالخصوص حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے متعلق اس سے بڑھ کر کیا وضاحت ہو سکتی ہے کہ خود حق تعالی شانہ نے قرآن پاک میں تعریف کے موقع پر فرمایا:
وَسَيُجَنَّبُهَا الْأَتْقَى ﴿١٧﴾ الَّذِي يُؤْتِي مَالَهُ يَتَزَكَّىٰ ﴿١٨﴾ وَمَا لِأَحَدٍ عِندَهُ مِن نِّعْمَةٍ تُجْزَىٰ ﴿١٩﴾ إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلَىٰ ﴿٢٠﴾ وَلَسَوْفَ يَرْضَىٰ ﴿٢١﴾
اور اس (آگ سے) وہ شخص دور رکھا جائےگا، جو بڑا پرہیز گار ہے، جو اپنا مال اس غرض سے (اللہ کے راستہ میں) دیتا ہے کہ پاک ہو جائے اور بَجُز اپنے عالی شان پروردگار کی رضاجوئی کے (کوئی اور اس کی غرض نہیں ہے اور) کسی کا اس کے ذمہ کوئی احسان نہ تھا کہ اس کا بدلہ اتارنا مقصود ہو۔
اس میں نہایت ہی مبالغہ اخلاص کا ہے؛ کیوں کہ کسی کے احسان کا بدلہ اتارنا بھی مطلوب اور مندوب ہے؛ مگر فضیلت میں احسان ابتدائی کے برابر نہیں۔ (بیان القرآن)
ابن جوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ آیت شریفہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شان میں نازل ہوئی۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ مجھے کسی کے مال نے اتنا نفع نہیں دیا، جتنا ابو بکر کے مال نے دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سن کر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ رونے لگے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا میں اور میرا مال آپ کے سوا کسی اور کا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بہت سی روایات میں نقل کیا گیا۔
سعید بن المسیب رحمہ اللہ کی روایت میں اس کے بعد یہ بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے مال میں اسی طرح تصرّف فرماتے تھے، جس طرح اپنے مال میں فرماتے تھے۔
حضرت عروہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جس وقت حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ مسلمان ہوئے، تو ان کے پاس چالیس ہزار دِرَم تھے، جو سب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر خرچ کر دیے (یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی میں)۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ اسلام لانے کے وقت چالیس ہزار درم تھے اور ہجرت کے وقت پانچ ہزار رہ گئے تھے۔ یہ ساری رقم غلاموں کے آزاد کرنے میں (جن کو اسلام لانے کے جُرم میں عذاب دیا جاتا تھا) اور اسلام کے دوسرے کاموں میں خرچ کیے گئے۔ (تاریخ الخلفاء)
حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ضعیف، ضعیف غلاموں کو خرید کر آزاد کیا کرتے تھے۔ ان کے والد ابو قحافہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر تمہیں غلام ہی آزاد کرنے ہیں، تو قوی، قوی غلاموں کو خرید کر آزاد کیا کرو کہ وہ تمہاری مدد بھی کر سکیں۔ وقت پر کام بھی آ سکیں۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ (میں اپنے لیے آزاد نہیں کرتا) میں تو محض اللہ تعالی کی خوشنودی کے لیے آزاد کرتا ہوں۔ (در منثور)
اور حق تعالی شانہ کے یہاں ضعیف، کمزور کی مدد کا جتنا اجر ہے، وہ قوی کی مدد سے بہت زیادہ ہے۔
ایک اور حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ کوئی شخص ایسا نہیں ہے، جس کا مجھ پر احسان ہو اور میں نے اس کے احسان کا بدلہ نہ دیا ہو؛ مگر ابو بکر کا احسان میرے ذمہ ہے (جس کا بدلہ میں نہیں دے سکا)۔ حق تعالیٰ شانہ خود ہی قیامت کے دن اس کے احسان کے بدلہ عطا فرمائیں گے۔ مجھے کسی کے مال نے اتنا نفع نہیں دیا جتنا ابو بکر کے مال نے نفع دیا۔ (تاریخ الخلفاء) (فضائلِ صدقات، ص ۶۹۵-۶۹۷)