دجال کے فتنوں سے کیسے بچیں؟
احادیث مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو ہر زمانے کے فتنوں اور خصوصا دجال کے فتنوں سے حفاظت کا طریقہ سکھایا ہے؛ چناں چہ ایک حدیث شریف میں ہے کہ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! (فتنوں سے) نجات کا طریقہ کیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی زبان کو قابو میں رکھو، تمہارا گھر تمہارے لیے کافی ہو اور اپنی گناہوں پر رویا کرو۔ (سنن ترمذی، الرقم: ۲۴۰۶)
اس حدیث شریف میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین ہدایات بیان فرمائی ہیں، جن کے ذریعے ہم ہر زمانے کے فتنوں اور خصوصا دجال کے فتنوں سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔
(۱) گھر کے اندر رہنا
پہلی ہدایت یہ ہے کہ انسان اپنے گھر میں رہے اور فتنوں کی جگہوں سے گریز کرے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمایا ہے کہ قیامت سے پہلے فتنوں کا یہ حال ہوگا کہ اگر کوئی شخص ان کی طرف صرف نظر ڈالےگا، تو وہ فوراً اس کو اپنے اندر کھینچ لیں گے؛ چناں چہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
مَنْ تَشَرّفَ لَهَا تَسْتَشْرِفُهُ
جو اس کی طرف دیکھنے کے لیے اپنی گردن بڑھائےگا، وہ اس کو اپنے اندر کھینچ لےگا۔ (صحیح البخاری، الرقم: ۳۶۰۱)
لہٰذا ہر شخص اپنی اور اپنے اہل وعیال کی نجات کے لیے اس بات کا اہتمام کرے کہ وہ اور اس کے اہل وعیال ہر اس مجمع یا جگہ سے بالکل دور رہیں، جہاں فتنہ اور گناہ کا ارتکاب کیا جاتا ہو۔
ایک اور حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھروں میں رہنے کی تاکید کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
كُوْنُوْا أَحْلَاسَ بُيُوْتِكُمْ
اپنے گھروں کے ٹاٹ (کی طرح) بن جاو۔ (سنن ابی داؤد، الرقم: ۴۲۶۲)
یعنی جس طرح قالین کا اندرونی حصہ (ٹاٹ) زمین سے لگا رہتا ہے اور حرکت نہیں کرتا ہے، اسی طرح انسان کو (دین وایمان کی حفاظت کے لیے) اپنے گھر میں رہنا چاہیئے۔
(۲) بات چیت اور گفتگو میں کامل احتیاط
دوسری ہدایت یہ ہے کہ انسان اپنے گفتگو اور بات چیت میں انتہائی احتیاط برتے؛ کیوں کہ فتنے کا آغاز بات چیت سے ہوتا ہے۔
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی مذکورہ بالا حدیث میں اگرچہ لفظ ‘زبان’ استعمال ہوا ہے؛ مگر حدیث کا مفہوم بات چیت کے ان تمام ذرائع کو شامل ہے، جن میں آدمی کو احتیاط کرنا چاہیئے؛ اس لیے کہ انسان ان ذرائع سے اپنی باتیں دوسروں تک پہنچاتا ہے۔
لہذا ہر انسان کو چاہیئے کہ وہ بات چیت کرنے کے لیے جس ذریعے کا استعمال کرے (خواہ وہ موبائل ہو یا سوشل میڈیا یا کوئی اور ذریعہ ہو)، وہ انتہائی احتیاط کے ساتھ اس کا استعمال کرے۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اپنے گھروں میں رہنے کا حکم اس لیے دیا ہے کہ جب انسان اپنے گھر کے حدود میں رہتا ہے، تو باہر کی دنیا سے اس کا تعلق کم ہو جاتا ہے؛ نیز اس کے لیے بیرونی فتنوں کے شکار ہونے کا امکان بہت کم رہتا ہے۔
لہٰذا اگر کوئی شخص گھر کے اندر رہتا ہے؛ لیکن انٹرنیٹ، فون، سوشل میڈیا وغیرہ کے ذریعے باہر کی دنیا میں ہونے والے تمام واقعات کی خبر رکھتا ہے، تو وہ اگرچہ گھر کے اندر ہے؛ مگر اس شخص سے الگ نہیں ہے، جو گھر سے باہر ہے؛ کیوں کہ وہ گھر کے باہر کی ہونے والی تمام چیزوں سے متاثر ہوتا ہے اور آسانی سے فتنے کا شکار ہو جاتا ہے۔
(۳) کمزوریوں اور گناہوں کے بارے میں ہمیشہ فکرمند رہنا
تیسری ہدایت یہ ہے کہ انسان کو اپنی کمزوریوں اور گناہوں کے بارے میں ہمیشہ فکرمند رہنا چاہیئے اور اپنی اصلاح کی پوری کوشش کرنی چاہیئے۔
اگر کوئی شخص اپنی زندگی کا جائزہ لے، تو اس کو اپنی زندگی میں بے شمار خامیاں اور کوتاہیاں نظر آئیں گی؛ لہذا وہ اپنی کوتاہیوں پر روئے اور اپنے تمام گناہوں سے توبہ کرے اور اپنی اصلاح کی کوشش کرے۔ جب وہ اپنی کمزوریوں اور گناہوں پر نظر رکھےگا، تو وہ دوسروں کے عیوب کے پیچھے نہیں پڑےگا۔
(۴) قرآن وسنت پر مضبوطی سے عمل
مذکورہ بالا تین ہدایات کے علاوہ دوسری احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو حکم دیا ہے کہ وہ دنیا کے مختلف چیلنجوں کے باوجود قرآن کریم اور سنت مبارکہ کو مضبوطی سے تھامے رکھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
بے شک تم اپنے رب کی طرف سے واضح ہدایت پر قائم رہوگے؛ جب تک دو چیزوں کا نشہ تم پر غالب نہ آئے: جہالت کا نشہ اور عیش وعشرت کی محبت کا نشہ۔ تم اِس وقت لوگوں کو نیک کاموں کا حکم دے رہے ہو، برے کاموں سے روک رہے ہو اور دین کے لیے جہاد کر رہے ہو؛ مگر جب دنیا کی محبت تم پر غالب آجائےگی، تو تم لوگوں کو نیک کاموں کا حکم نہیں دوگے، برے کاموں سے نہیں روکوگے اور دین کی خاطر جہاد نہیں کروگے۔ جو لوگ اُس وقت قرآن مجید اور سنت مبارکہ کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہوں گے، وہ اسلام کے آغاز میں مہاجرین وانصار رضی اللہ عنہم کی طرح ہوں گے۔ (مسند البزّار، الرقم: ۲۶۳۱؛ مجمع الزوائد، الرقم: ۱۲۱۵۹)
(۵) کفار کے طریقوں کی مشابہت سے اجتناب
بہت سی احادیث میں امت کو منع کیا گیا ہے کہ وہ کفار کے طریقوں کی نقل کرے اور ان کے فیشن اور طرز زندگی کی پیروی کرے؛ کیوں کہ جب کوئی شخص کفار کی پیروی کرتا ہے، تو وہ ان کے فتنوں اور خطاؤں کا شکار ہو جاتا ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے دشمنوں یعنی یہود ونصاریٰ کے تہوار کی مشابہت سے بچو، کیوں کہ ان پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوتا ہے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ (اگر تم ان کی تقلید کروگے یا ان کی کسی تہواروں میں شرکت کروگے، تو) اللہ تعالیٰ کا غضب تم پر نازل ہوگا۔ جب تم ان کے باطن کا حال (اور ان کے دلوں میں اسلام کے لیے جو نفرت ہے، اس کو) نہیں جانتے ہو، تو تم ان کے طریقے اور طرزِ زندگی کو کیسے اپناتے ہو؟ (شعب الایمان، الرقم: ۸۹۴۰)
اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے ایک مرتبہ فرمایا کہ جو شخص کفار کی سر زمین میں رہتا ہے، ان کی تہواروں میں شرکت کرتا ہے اور ان کی مشابہت اختیار کرتا ہے؛ یہاں تک کہ وہ اسی حالت میں مر جائے، تو وہ قیامت کے دن ان کے ساتھ اٹھایا جائےگا۔ (المہذب فی اختصار سنن الکبیر، الرقم: ۱۴۶۵۹)
(۶) سورہ یٰس اور سورہ کہف کی تلاوت کا اہتمام
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں روزانہ سورہ یٰس اور ہر جمعہ کو سورہ کہف پڑھنے کی ترغیب دی ہے؛ تاکہ ہم ذہنی سکون واطمینان کے ساتھ ساتھ دینی سلامتی اور برکت حاصل کریں۔
اگر ہم ان دونوں سورتوں کی آیات میں غور کریں، تو ہمیں معلوم ہوگا کہ سورہ یٰس کا موضوع آخرت ہے؛ جب کہ سورہ کہف کا موضوع دین کی حفاظت کا طریقہ ہے یعنی ہم اسی طرح اپنے دین کی حفاظت کریں، جس طرح غار کے نوجوانوں نے اپنے آپ کو فتنہ سے بچایا تھا اور اپنے دین وایمان کی حفاظت کی تھی۔
اس لیے جب ہم ان سورتوں کی تلاوت کریں، تو ہم اللہ تعالٰی سے یہ امید رکھیں کہ اللہ تعالی ہمیں آخرت کی بھلائی عطا فرمائےگا اور دنیا وآخرت کے فتنوں سے ہماری حفاظت فرمائےگا۔