حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی نظر میں حضرت ابو ‏عبیدہ رضی اللہ عنہ کا بلند مقام‎

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ فرمایا:

أخلائي من هذه الأمة ثلاثة: أبو بكر وعمر وأبو عبيدة بن الجراح رضي الله عنهم (فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل، الرقم: ١٢٧٧)

اس امت میں میرے تین خاص دوست ہیں: ابو بکر، عمر اور ابو عبیدہ رضی اللہ عنہم۔

حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی نظر میں حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کا بلند مقام

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد انصار سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوئے؛ تاکہ وہ اپنے درمیان سے ایک خلیفہ کا انتخاب کریں۔

اس وقت حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں تھے اور ان کو اس کے بارے میں علم نہیں تھا۔

حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر ہی میں تھے کہ اچانک حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے باہر سے ایک آواز سنی کہ اے خطاب کے بیٹے! باہر آؤ! (میں آپ سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں)۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ چلے جاؤ؛ کیوں کہ میں ابھی مشغول ہوں (اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم مبارک آپ کے گھر ہی میں تھا اور آپ کو دفن نہیں کیا گیا تھا)، پھر آواز آئی: باہر آؤ! کیوں کہ کچھ بڑا واقعہ ہونے والا ہے۔ انصار اپنے درمیان سے ایک خلیفہ منتخب کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں؛ لہٰذا ان کے پاس جاؤ! اس سے پہلے کہ کوئی اختلاف پیدا ہو جائے اور تمہارے اور ان کے درمیان جنگ چھڑ جائے۔

یہ سن کر حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما فوراً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے نکلے اور سقیفہ بنی ساعدہ کی طرف چل پڑے۔ راستے میں ان کی ملاقات حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ سے ہوئی، تو وہ بھی ان کے ساتھ ہو گئے۔

سقیفہ بنی ساعدہ پہنچنے کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور انصار کے درمیان ایک طویل بات چیت ہوئی۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ان کو سمجھایا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ خلیفہ صرف قریش سے ہو سکتا ہے اور چوں کہ وہ قریش میں سے نہیں ہیں؛ اس لیے خلیفہ ان میں سے نہیں ہو سکتا۔

اس کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر اور حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہما کا ہاتھ پکڑ کر انصار سے فرمایا: میں اس سے خوش ہوں کہ تم ان دونوں شخصیات میں سے کسی ایک کو منتخب کرو (یعنی ان میں سے جس کو چاہو، اس کو مسلمانوں کا خلیفہ مقرر کر لو)۔ (مسند احمد، الرقم: ۳۹۱)

اس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انصار کو مخاطب کرکے فرمایا: اے انصار کے لوگو! کیا تم نہیں جانتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر کو حکم دیا تھا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں؟ تم میں سے کس کو اتنی ہمت ہوگی کہ وہ ابو بکر کے سامنے کھڑا ہو (اور خلیفہ کی حیثیت سے نماز پڑھائے)؟

یہ سن کر انصار نے عرض کیا کہ ہم اس بات سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں کہ ہم ابو بکر کے سامنے کھڑے ہوں۔ (فتح الباری ۱۲/۱۷۵)

اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر ان سے بیعت کی، پھر حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ اور انصار نے ان سے بیعت کی۔ اس کے بعد باقی تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔

اس واقعہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی نظر میں حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کا مقام کتنا زیادہ بلند تھا کہ انہوں نے حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو اسلام کا پہلا خلیفہ بنانے کی رائے پیش کی؛ مگر حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ سمیت تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس تجویز کو قبول نہیں کیا اور سب نے اس بات پر اتفاق کیا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے بڑا کوئی صحابی نہیں ہے؛ لہذا وہی خلافت کے سب سے زیادہ حق دار ہیں۔

Check Also

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب لوگ

سأل سيدنا عمرو بن العاص رضي الله عنه ذات مرة فقال: يا رسول الله، أي …