دعا کی سنتیں اور آداب – ۷

(۱۷) بہتر یہ ہے کہ جامع دعا کریں۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جامع دعائیں پسند فرماتے تھے اور غیر جامع دعائیں چھوڑ دیتے تھے۔ (سنن ابی داود، الرقم: ۱۴۸۴)

ذیل میں کچھ مسنون دعائیں نقل کی جا رہی ہیں، جو مختلف احادیث مبارکہ میں وارد ہوئی ہیں اور جامع ہیں:

رَبَّنَا آتِنَا فِيْ الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِيْ الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ

اے اللہ! ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا لے۔

اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِ مَا سَأَلَكَ مِنْهُ نَبِيُّكَ مُحَمَّدٌ صَلّٰى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَعُوْذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا اسْتَعَاذَ مِنْهُ نَبِيُّكَ مُحَمَّدٌ صَلّٰى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنْتَ الْمُسْتَعَانُ وَعَلَيْكَ الْبَلَاغُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ

اے اللہ! میں آپ سے وہ بھلائی مانگتا ہوں، جو آپ سے آپ کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مانگی ہے اور اس برائی سے آپ کی پناہ مانگتا ہوں، جس سے آپ کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پناہ مانگی ہے اور آپ ہی سے مدد طلب کی جاتی ہے اور آپ ہی مُرادیں پوری کرنے والے ہیں اور (گناہوں سے بچنے کی) طاقت اور (نیکی کرنے کی) قوت صرف اللہ ہی کی مدد سے حاصل ہوتی یے۔

(۱۸) اللہ تعالیٰ سے عافیت کی دعا کریں (یعنی یہ دعا کریں کہ اللہ تعالی آپ کو زندگی کے تمام امور میں عافیت عطا فرمائے)۔

حضرت عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! مجھے کوئی ایسی (مفید) دعا بتائیے، جو میں اللہ تعالیٰ سے مانگوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے عافیت (جسمانی اور روحانی سکون) مانگو۔ کچھ دنوں کے بعد میں دوبارہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! مجھے کوئی ایسی دعا بتائیے، جو میں اللہ تعالیٰ سے مانگوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عباس! اے اللہ کے رسول کے چچا! دنیا اور آخرت میں اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگو۔ (سنن الترمذی، الرقم: ۳۵۱۴)

(۱۹) حرام یا مشتبہ چیز کھانے سے پرہیز کریں اور گناہوں سے اجتناب کریں؛ کیونکہ یہ دونوں چیزیں (حرام یا مشتبہ چیز کھانا اور گناہوں کا ارتکاب کرنا) دعا کی قبولیت کے لیے مانع ہیں۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے لوگو! بے شک اللہ پاک ہیں اور صرف پاک چیز کو قبول فرماتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مؤمنین کو اس چیز کا حکم دیا، جس کا رسولوں کو دیا ہے۔ (رسولوں کے بارے میں) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اے رسولو! تم حلال اور پاک چیزوں میں سے کھاؤ اور نیک کام کرو۔ میں تمہارے اعمال کو خوب جانتا ہوں۔ (مومنین کے بارے میں) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اے ایمان والو! تم ہمارے عطا کیے ہوئے رزق میں سے حلال اور پاک چیزیں کھاؤ۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کا ذکر فرمایا، جو لمبا سفر کرتا ہے، اس حال میں کہ اس کے بال پراگندہ ہیں۔ اس کے کپڑے غبار آلود ہیں اور وہ آسمان کی طرف اپنا ہاتھ اٹھا کر کہتا ہے: اے میرے رب! اے میرے رب! (اس مصیبت میں میری مدد کیجیئے)؛ حالنکہ اس کا کھانا حرام ہے۔ اس کا پینا حرام ہے۔ اس کا لباس بھی حرام ہے اور حرام غذا سے اس کی نشو ونما ہوئی ہے، تو اس شخص کی دعا کیسے قبول ہوگی (یعنی اس کی حالت قابلِ تَرس ہے، پھر بھی اس کی دعا قبول نہیں ہوگی)۔ (صحیح مسلم، الرقم: ۱۰۱۵)

(۲۰) کسی بھی وقت اپنی اولاد کو بد دعا نہ دیں؛ کیونکہ ممکن ہے کہ جس وقت آپ اپنی اولاد کو بد دعا دے رہے ہیں، وہ دعا کی قبولیت کا وقت ہو۔

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اپنے خلاف، اپنی اولاد، اپنے غلاموں اور اپنے مال کے خلاف بد دعا نہ کرو؛ کیونکہ ممکن ہے کہ وہ وقت (جس وقت آپ بد دعا کر رہے ہیں) ایسا وقت ہو کہ اس وقت اللہ تعالی سے جو بھی دعا کی جائے، اللہ تعالی قبول فرمائیں گے۔ (سنن ابی داود، الرقم: ۱۵۳۴)

(۲۱) دعا کی قبولیت اور اس کا نتیجہ ظاہر ہونے میں جلد بازی اور بے صبری نہ کریں۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندہ اس وقت تک خیر کی حالت میں رہےگا، جب تک کہ وہ (اللہ تعالی کے فیصلے پر راضی رہے اور) جلد بازی نہ کرے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! جلد بازی سے کیا مراد ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ یوں کہے کہ میں نے اپنے رب سے دعا کی؛ لیکن انہوں نے میری دعا قبول نہیں کی۔ (مسند احمد، الرقم: ۱۳۰۰۸)

(۲۲) اگر کوئی شخص یہ محسوس کرتا ہے کہ اس کی دعائیں قبول نہیں ہو رہی ہیں، تو اس کو مایوس نہیں ہونا چاہیئے؛ بلکہ وہ اللہ تعالیٰ سے مسلسل دعا کرتا رہے۔ اسے یہ سمجھنا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہر بندے کے لیے کیا بہتر ہے اور اللہ تعالی اس کو مناسب وقت پر بہترین چیز عطا فرمائیں گے۔

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو مسلمان اللہ سے دعا کرتا ہے اور اس کی دعا میں کسی گناہ (یعنی کسی ناجائز چیز) اور قطع رحمی کا سوال نہیں ہوتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اسے تین چیزوں میں سے ایک چیز عطا فرماتے ہیں: یا تو اس کو (اس دنیا میں) وہی چیز عطا فرماتے ہیں، جس کی اس نے دعا کی تھی یا اس کے لیے دعا کا ثواب آخرت میں ذخیرہ کے طور پر رکھ دیتے ہیں یا اس سے کسی مصیبت کو دور فرما دیتے ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے فرمایا: تب تو ہم کثرت سے دعا کریں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ ہر چیز سے بڑھ کر ہیں (یعنی ان کی طاقت اور خزانے اس سے زیادہ ہیں، جو تم مانگتے ہو)۔ (مسند احمد، الرقم: ۱۱۱۳۳)

Check Also

زکوٰۃ کی سنتیں اور آداب – ‏۵

اموالِ زکوۃ مندرجہ ذیل اموال پر زکوٰۃ فرض ہے: ‏(۱) نقد مال جو آدمی کے …