عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: رغم أنف رجل ذكرت عنده فلم يصل علي، ورغم أنف رجل دخل عليه رمضان ثم انسلخ قبل أن يغفر له، ورغم أنف رجل أدرك عنده أبواه الكبر فلم يدخلاه الجنة قال عبد الرحمن: وأظنه قال: أو أحدهما. (سنن الترمذي، الرقم: 3545)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہلاک ہو وہ آدمی، جس کے سامنے میرا نام لیا گیا، پھر بھی اس نے مجھ پر درود نہیں بھیجا۔ ہلاک ہو وہ آدمی، جس نے رمضان کا بابرکت مہینہ پایا، پھر بھی وہ گزر گیا، اس سے پہلے کہ اس کی مغفرت کی جائے (یعنی اس نے ماہ رمضان کے حقوق ادا نہیں کیے)۔ ہلاک ہو وہ آدمی، جس کے سامنے اس کے ماں باپ یا ان میں سے کوئی ایک بڑھاپے کو پہنچ جائیں، پھر بھی (ان کی خدمت نہ کرنے کی وجہ سے) وہ اس کے لیے جنت میں داخل ہونے کا ذریعہ نہ بنیں۔
درود شریف پڑھنے والوں کے لئے خوشخبری
محمد بن مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں:
میں بغداد گیا؛ تاکہ قاری ابو بکربن مجاہد رحمہ اللہ کے پاس کچھ پڑھوں۔ ہم لوگوں کی ایک جماعت ان کی خدمت میں حاضر تھی اور قراءت ہو رہی تھی اتنے میں ایک بڑے میاں ان کی مجلس میں آئے جن کے سر پر بہت ہی پرانا عمامہ تھا، ایک پرانا کرتا تھا، ایک پرانی سی چادر تھی۔ ابوبکر ان کو دیکھ کر کھڑے ہو گئے اور ان کو اپنی جگہ بٹھایا اور ان سے ان کے گھروالوں کی اہل وعیال کی خیرریت پوچھی۔
ان بڑے میاں نے کہا رات میرے ایک لڑکا پیدا ہوا،گھر والوں نے مجھ سے گھی اور شہد کی فرمائش کی۔ شیخ ابو بکر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں ان کا حال سن کر بہت ہی رنجیدہ ہوا اور اسی رنج وغم کی حالت میں میری آنکھ لگ گئی تو میں نے خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی۔
حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اتنا رنج کیوں ہے، علی بن عیسٰی وزیر کے پاس جا اور اس کو میری طرف سے سلام کہنا اور یہ علامت بتانا کہ تو ہر جمعہ کی رات کو اس وقت تک نہیں سوتا جب تک کہ مجھ پر ایک ہزار مرتبہ درود نہ پڑھ لے اور اس جمعہ کی رات میں تو نے سات سو مرتبہ پڑھا تھا کہ تیرے پاس بادشاہ کا آدمی بلانے آگیا تو وہاں چلا گیا اور وہاں سے آنے کے بعد تو نے اس مقدار کو پورا کیا۔ یہ علامت بتانے کے بعد اس سے کہنا کہ اس نو مولود کے والد کو سو دینار (اشرفیاں) دیدے؛ تاکہ یہ اپنی ضروریات میں خرچ کر لے۔
قاری ابو بکر اٹھے اور ان بڑے میاں نو مولود کے والد کو ساتھ لیا اور دونوں وزیر کے پاس پہنچے۔ قاری ابو بکر نے وزیر سے کہا اِن بڑے میاں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہارے پاس بھیجا ہے۔ وزیر کھڑے ہو گئے اور ان کو اپنی جگہ بٹھایا اور ان سے قصّہ پوچھا۔
شیخ ابو بکر نے سارا قصّہ سنایا جس سے وزیر کو بہت ہی خوشی ہوئی اور اپنے غلام کو حکم کیا کہ ایک توڑا نکال کر لائے (توڑا ہمیانی تھیلی جس میں دس ہزار کی مقدار ہوتی ہے) اس میں سے سو دینار اس نومولود کے والد کو دیئے، اس کے بعد سو اور نکالے؛ تاکہ شیخ ابو بکر کو دے، شیخ نے ان کے لینے سے انکار کیا۔
وزیر نے اصرار کیا کہ ان کو لے لیجئے۔ اس لئے کہ یہ اس بشارت کی وجہ سے ہے جو آپ نے مجھے اس واقعہ کے متعلق سنائی، اس لئے کہ یہ واقعہ یعنی ایک ہزار درود والا ایک راز ہے جس کو میرے اور اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ پھر سو دینار اور نکالے اور یہ کہا کہ یہ اس خوشخبر ی کے بدلہ میں ہیں کہ تم نے مجھے اس کی بشارت سنائی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو میرے درود شریف پڑھنے کی اطلاع ہے۔ اور پھر سو اشرفیاں اور نکالیں اور یہ کہا کہ یہ اس مشقت کے بدلہ میں ہے جو تم کو یہاں آنے میں ہوئی۔
اسی طرح سو سو اشرفیاں نکالتے رہے؛ یہاں تک کہ ایک ہزار اشرفیاں نکالیں؛ مگر انہوں نے یہ کہ کر انکار کر دیا کہ ہم اس مقدار یعنی سو دینا ر سے زائد نہیں لیں گے جن کا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا۔ (فضائل درود، ص۱۷۳)
يَا رَبِّ صَلِّ وَسَلِّم دَائِمًا أَبَدًا عَلَى حَبِيبِكَ خَيرِ الْخَلْقِ كُلِّهِمِ