فضائلِ اعمال – ۱۷

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حالت

آپ رضی الله عنہ کے غلام حضرت اسلم رحمہ الله کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ حضرت عمر رضی الله عنہ کے ساتھ حَرّہ کی طرف جا رہا تھا۔

ایک جگہ آگ جلتی ہوئی جنگل میں نظر آئی۔ حضرت عمر رضی الله عنہ نے فرمایا کہ شاید یہ کوئی قافلہ ہے، جو رات ہو جانے کی وجہ سے شہر میں نہیں گیا، باہر ہی ٹھہر گیا۔ چلو اس کی خیر خبر لیں، رات کو حفاظت کا انتظام کریں۔

وہاں پہنچے، تو دیکھا کہ ایک عورت ہے، جس کے ساتھ چند بچے ہیں، جو رو رہے ہیں اور چلّا رہے ہیں اور ایک دیگچی چُولہے پر رکھی ہے، جس میں پانی بھرا ہوا ہے اور اس کے نیچے آگ جل رہی ہے۔ انہوں نے سلام کیا اور قریب آنے کی اجازت لے کر اس کے پاس گئے اور پوچھا کہ یہ بچے کیوں رو رہے ہیں؟ عورت نے کہا کہ بھوک سے لاچار ہو کر رو رہے ہیں۔

دریافت فرمایا کہ اس دیگچی میں کیا ہے؟ عورت نے کہا کہ پانی بھر کر بہلانے کے واسطے آگ پر رکھ دی ہے کہ ذرا ان کو تسلی ہو جائے اور سو جائیں۔ امیر المومنین عمر کا اور میرا الله ہی کے یہاں فیصلہ ہوگا کہ میری اس تنگی کی خبر نہیں لیتے۔

حضرت عمر رضی الله عنہ رونے لگے اور فرمایا کہ الله تجھ پر رحم کرے! بھلا، عمر کو تیرے حال کی کیا خبر ہے؟ کہنے لگی کہ وہ ہمارے امیر بنے ہیں اور ہمارے حال کی خبر بھی نہیں رکھتے!

اسلم رحمہ الله کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی الله عنہ مجھے ساتھ لے کر واپس ہوئے اور ایک بوری میں بیت المال میں سے کچھ آٹا اور کھجوریں اور چربی اور کچھ کپڑے اور کچھ درہم لیے۔ غرض اس بوری کو خوب بھر لیا اور فرمایا کہ یہ میری کمر پر رکھ دے۔

میں نے عرض کیا کہ میں لے چلوں؟ آپ رضی الله عنہ نے فرمایا: نہیں میری کمر پر رکھ دے۔

دو تین مرتبہ جب میں نے اصرار کیا، تو فرمایا: کیا قیامت میں بھی میرے بوجھ کو تو ہی اٹھائےگا؟ اس کو میں ہی اٹھاؤں گا، اس لیے کہ قیامت میں مجھ ہی سے اس کا سوال ہوگا۔

میں نے مجبور ہو کر بوری کو آپ کی کمر پر رکھ دیا۔ آپ نہایت تیزی کے ساتھ اس کے پاس تشریف لے گئے، میں بھی ساتھ تھا۔

وہاں پہنچ کر اس دیگچی میں آٹا اور کچھ چربی اور کھجوریں ڈالیں اور اس کو چلانا شروع کیا اور چولہے میں خود ہی پھونک مارنا شروع کیا۔

اسلم رحمہ الله کہتے ہیں کہ آپ رضی الله عنہ کی گَنجان ڈاڑھی سے دھواں نکلتا ہوا میں دیکھتا رہا؛ حتی کہ حَرِیرَہ سا تیار ہو گیا۔

اس کے بعد آپ نے اپنے دست مبارک سے نکال کر ان کو کھلایا۔ وہ سیر ہو کر خوب ہنسی کھیل میں مشغول ہو گئے اور جو بچا تھا، وہ دوسرے وقت کے واسطے ان کے حوالے کر دیا۔

وہ عورت بہت خوش ہوئی اور کہنے لگی: الله تعالی تمہیں جزائے خیر دے! تم تھے اِس کے مستحق کہ بجائے حضرت عمر کے، تم ہی خلیفہ بنائے جاتے۔ حضرت عمر رضی الله عنہ نے اس کو تسلی دی اور فرمایا کہ جب تم خلیفہ کے پاس جاؤگی، تو مجھ کو بھی وہیں پاؤگی۔

حضرت عمر رضی الله عنہ اس کے قریب ہی ذرا ہٹ کر زمین پر بیٹھ گئے اور تھوڑی دیر بیٹھنے کے بعد چلے آئے اور فرمایا کہ میں اس لیے بیٹھا تھا کہ میں نے ان کو روتے ہوئے دیکھا تھا، میرا دل چاہا کہ تھوڑی دیر ان کو ہنستے ہوئے بھی دیکھوں۔

صبح کی نماز میں اکثر سورہ کہف، طہ وغیرہ بڑی سورتیں پڑھتے اور روتے کہ کئی کئی صفوں تک آواز جاتی۔

ایک مرتبہ صبح کی نماز میں سورہ یوسف پڑھ رہے تھے۔ إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللَّهِ (یوسف: ۸٦) پر پہنچے، تو روتے روتے آواز نہ نکلی۔

تہجد کی نماز میں بعض مرتبہ روتے روتے گر جاتے اور بیمار ہو جاتے۔

ف: یہ ہے الله کا خوف اس شخص کا، جس کے نام سے بڑے بڑے نامور بادشاہ ڈرتے تھے، کانپتے تھے۔ آج بھی ساڑھے تیرہ سو برس کے زمانہ تک اس کا دَبْدَبہ مانا ہوا ہے۔

آج کوئی بادشاہ نہیں، حاکم نہیں، کوئی معمولی سا امیر بھی اپنی رعایا کے ساتھ ایسا برتاؤ کرتا ہے؟ (فضائلِ اعمال، حکایات صحابہ، ص ۳٦-۳۷)

Check Also

فضائلِ اعمال – ۲۲

حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کا اپنے باپ کو انکار حضرت زید بن …