رسولِ کریم صلی الله علیہ وسلم کی چار بنیادی ذمہ داریاں
رسولِ کریم صلی الله علیہ وسلم اس دنیا میں لوگوں میں دین قائم کرنے کے لیے مبعوث کیے گئے اور اس عظیم الشان مقصد کی تکمیل کے لیے آپ کو چار ذمہ داریاں دی گئیں۔
ان چاروں ذمہ داریوں پر دین قائم کرنے کا اور دین کی حفاظت کا دار ومدار ہیں؛ لہذا اگر امتِ مسلمہ اپنی زندگی اور دوسروں کی زندگی میں دین قائم کرنا چاہتی ہے، تو ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان ذمہ داریوں کو نبھائے۔
قرآن کریم میں الله تعالیٰ نے نبی ابراہیم علیہ السلام کی دعا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ ۚ (سورة البقرة، آیت: 129)
اے ہمارے رب! ان میں ایک رسول (یعنی رسول الله صلی الله علیہ وسلم) انہی میں سے بھیج، جو ان کے سامنے تیری آیتوں کی تلاوت کرے، انہیں کتاب اور حکمت (یعنی سنت) کی تعلیم دے اور ان کو پاکیزہ بنائے۔
جب ہم اس آیت کریمہ میں غور کرتے ہیں، تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس آیتِ کریمہ میں الله تعالیٰ نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی چار بنیادی ذمہ داریاں بیان کی ہیں:
(١) آپ صلی الله علیہ وسلم کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ امت کو قرآن مجید کی تلاوت کا صحیح طریقہ سکھائیں۔
(٢) آپ صلی الله علیہ وسلم کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ امت کو قرآن پاک کے احکام کی تعلیم دیں اور ان کو وہ احکام سکھائیں، جو آپ پر نازل کیے گئے ہیں۔
(٣) آپ صلی الله علیہ وسلم کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ امت کو اپنی سنت سکھائیں، جس کی تعبیر “حکمت” کے لفظ سے کی گئی۔ امت کو سنت کی تعلیم دینا اس لیے ضروری ہے کہ سنت کے علم کے بغیر شریعت کے تمام احکام پر عمل کرنا ممکن نہیں ہے، خواہ ان احکام کا تعلق حقوق الله سے ہو یا حقوق العباد سے ہو۔
(٤) آپ صلی الله علیہ وسلم کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ امت کو ظاہری اور باطنی گندگیوں سے پاک کریں اور انہیں اعلیٰ اخلاق واقدار سے آراستہ کریں۔
جہاں تک امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ہے، تو اس کو مذکورہ بالا امور کے بغیر انجام دینا ممکن نہیں ہے، اس لیے ہمارے لیے ضروری ہے کہ ان امور کا علم حاصل کریں؛ تاکہ ہم شریعت پر پورے طور پر عمل کر سکیں اور لوگوں کی اچھی طرح رہنمائی کر سکیں۔
قرآن مجید کی صحیح تلاوت سیکھنا اور قرآن وحدیث پر صحیح طریقہ سے عمل کرنا
اگر کوئی شخص قرآن مجید کو صحیح تلفظ اور تجوید کے ساتھ پڑھنا نہیں سیکھتا ہے، تو اس کی نماز درست نہیں ہوگی؛ کیونکہ وہ قرآن کریم کی تلاوت میں ایسی غلطیاں کر سکتا ہے، جو نماز کو فاسد کر دیتی ہیں اور اگر وہ اسی طرح نماز پڑھتا رہےگا، تو اس کی زندگی کا ایک بڑا حصہ اس حال میں گزر جائےگا کہ اس کی نماز درست نہیں ہوگی اور وہ آخرت میں سزا کا مستحق ہوگا۔
یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی الله عنہم اور امت کو ترغیب دی ہے کہ وہ قرآن مجید کو صحیح تجوید کے ساتھ پڑھنا سیکھیں۔
ایک حدیث شریف میں آیا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ قرآن سیکھو، پڑھو اور دوسروں کو سکھاؤ۔ (ترمذی شریف)
اسی طرح اگر کوئی شخص کتاب وسنت کا علم حاصل نہ کرے، تو وہ دین کے احکام پر صحیح طریقہ سے عمل نہیں کر سکتا ہے۔ اسی مقصد کے حصّل کے لیے الله تعالیٰ نے رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا؛ تاکہ آپ اپنی مبارک سنتوں کے ذریعہ لوگوں کو قرآن مجید سمجھائیں اور اس کی تشریح وتوضیح کریں۔
اس سے معلوم ہوا کہ جب تک نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی مبارک سنتوں کا علم نہ ہو، کوئی بھی شخص قرآن مجید کو صحیح طریقہ سے نہیں سمجھ سکتا ہے۔
حضرت عمران بن حصین رضی الله عنہ کا واقعہ
ایک مرتبہ ایک شخص حضرت عمران بن حصین رضی الله عنہ کے پاس آیا اور ایک مسئلہ کے بارے میں دریافت کیا۔
حضرت عمران بن حصین رضی الله عنہ نے ایک حدیث شریف کی روشنی میں اس مسئلہ کا جواب دیا؛ لیکن وہ شخص مطمئن نہیں ہوا اور کہا کہ آپ مجھے وہ جواب دیں، جو قرآن کریم میں موجود ہے۔
حضرت عمران بن حصین رضی الله عنہ نے اس شخص کو سمجھایا کہ دین کے بہت سے احکام کی تفصیل قرآن مجید میں مذکور نہیں ہے؛ بلکہ حدیث شریف میں مذکور ہے۔
مثلاً قرآن کریم ہمیں نماز پڑھنے کا حکم دیتا ہے؛ لیکن ہمیں نماز کی تفصیل قرآن کریم میں نہیں ملتی ہے؛ بلکہ حدیث شریف میں ملتی ہے۔ اسی طرح قرآن کریم میں زکوۃ دینے کا حکم دیا گیا ہے؛ لیکن زکوۃ دینے کی تفصیل قرآن کریم میں مذکور نہیں ہے؛ بلکہ اس کی تفصیلات احادیث مبارکہ میں بیان کی گئی ہیں۔
لہذا اگر کوئی شخص صرف قرآن پاک کو مضبوطی سے پکڑ لے اور حدیث شریف کو چھوڑ دے، تو وہ دین پر صحیح اور مکمل طور پر عمل کرنے میں ہرگز کامیاب نہیں ہوگا۔
یہی وجہ ہے کہ الله تعالیٰ نے رسولِ اکرم صلی الله علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا؛ تاکہ آپ اپنی مبارک سنتوں کے ذریعہ لوگوں کے سامنے قرآن مجید کے احکام کی تفصیلات بیان کریں۔
جب اس شخص نے حضرت عمران بن حصین رضی الله عنہ کی بات سنی، تو وہ بہت خوش ہوا اور فورًا ان کی بات تسلیم کر لی۔ (من المعجم الكبير للطبراني، الرقم: ٥٤٧ وسنن أبي داود، الرقم: ١٥٥٩)