قيل لسيدنا سعد بن أبي وقاص رضي الله عنه: متى أصبت الدعوة (أي استجابة دعائك)؟ قال: يوم بدر، كنت أرمي بين يدي النبي صلى الله عليه وسلم، فأضع السهم في كبد القوس، أقول: اللهم زلزل أقدامهم، وأرعب قلوبهم، وافعل بهم وافعل، فيقول النبي صلى الله عليه وسلم: اللهم استجب لسعد (المعجم الكبير، الرقم: ٣١٨)
ایک مرتبہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ آپ کو مستجاب الدعوات کا مقام کب ملا (یعنی جب بھی آپ دعا کرتے ہیں، آپ کی دعا قبول ہوتی ہے)؟
انہوں نے جواب دیا کہ مجھے یہ مقام غزوہ بدر کے دن ملا تھا، جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے (کفار کی طرف) تیر چلا رہا تھا۔ جب میں اپنی کمان میں تیر رکھ رہا تھا اور ان کو چلا رہا تھا، تو میں یہ دعا کر رہا تھا کہ اے اللہ! ان کے پاؤں پر لرزہ طاری کردیں، ان کے دلوں میں خوف پیدا کریں اور ان کے ساتھ (شکست کا) معاملہ کریں (یعنی انہیں شکست دیں)۔
میری دعا سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے دعا فرمائی: اے اللہ! سعد کی دعا قبول فرما۔
اسلام کی خاطر پہلا تیر چلانے والا
حضرت سعد رضی اللہ عنہ صحابہ کے اس گروہ میں شامل تھے، جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے پہلے سال بعد قریش کے قافلے کو روکنے کے لیے بھیجا تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ کو اس گروہ کا امیر مقرر فرمایا تھا۔
اس سریہ کے دوران صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مقامِ رابغ کا سفر کیا، جہاں ان کا مقابلہ قریش کے قافلے سے ہوا؛ لیکن کوئی لڑائی نہیں ہوئی، تاہم دونوں طرف سے تیر چلائے گئے۔
مسلمانوں کی طرف سے سب سے پہلے تیر چلانے والے حضرت سعد رضی اللہ عنہ تھے اور یہ اسلام کی خاطر اللہ تعالیٰ کی راہ میں پہلا تیر تھا۔
اسی سریہ کے سلسلے میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے یہ شعر پڑھا:
ألا هل أتى رسول اللَّه أنّي … حميت صحابتي بصدور نبلي
أذود بها عدوّهم ذيادا … بكلّ حزونة وبكلّ سهل
فما يعتدّ رام من معد … بسهم في سبيل اللّٰه قبلي
کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ کیسے میں نے تیر چلا کر اپنے ساتھیوں کی حفاظت کی؟
میں نے اپنے تیروں سے ان کے دشمنوں کو ہر سخت اور نرم زمین سے پوری طرح بھگا دیا۔
پس معد کی اولاد میں سے کوئی ایسا شخص نہیں، جس نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں مجھ سے پہلے تیر چلایا ہو۔ (الاصابہ ۳/۶۴)