دین کی خاطر سختیوں کا برداشت کرنا اور تکالیف ومشقت کا جھیلنا
حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی الله عنہم نے دین کے پھیلانے میں، جس قدر تکلیفیں اور مشقتیں برداشت کی ہیں، ان کا برداشت کرنا تو در کنار، اُس کا ارادہ کرنا بھی ہم جیسے نالائقوں سے دشوار ہے۔
تاریخ کی کتابیں ان واقعات سے بھری ہوئی ہیں؛ مگر ان پر عمل کرنا، تو علیحدہ رہا۔ ہم ان کے معلوم کرنے کی بھی تکلیف نہیں کرتے۔
اس باب میں چند قصوں کو نمونہ کے طور پر ذکر کرنا ہے۔ ان میں سب سے پہلے خود حضور صلی الله علیہ وسلم کے ایک قصہ سے ابتدا کرتا ہوں کہ حضور صلی الله علیہ وسلم کا ذکر برکت کا ذریعہ ہے۔
حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے طائف کے سفر کا قصہ
نبوت مل جانے کے بعد نو برس تک نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم مکہ مکرم میں تبلیغ فرماتے رہے اور قوم کی ہدایت اور اصلاح کی کوشش فرماتے رہے؛ لیکن تھوڑی سی جماعت کے سوا، جو مسلمان ہو گئی تھی اور تھوڑے سے ایسے لوگوں کے علاوہ، جو باوجود مسلمان نہ ہونے کے، آپ کی مدد کرتے تھے۔
اکثر کفار مکہ آپ کو اور آپ کے صحابہ رضی الله عنہم کو ہر طرح کی تکلیفیں پہنچاتے تھے، مذاق اڑاتے تھے اور جو ہو سکتا تھا، اُس سے درگذر نہ کرتے تھے۔
حضور صلی الله علیہ وسلم کے چچا ابو طالب بھی ان ہی نیک دل لوگوں میں تھے، جو باوجود مسلمان نہ ہونے کے، حضور صلی الله علیہ وسلم کی ہر قسم کی مدد فرماتے تھے۔ دسویں سال میں جب ابو طالب کا بھی انتقال ہو گیا، تو کافروں کو اور بھی ہر طرح کھلے مہار اسلام سے روکنے اور مسلمانوں کو تکلیف پہنچانے کا موقع ملا۔
حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم اس خیال سے طائف تشریف لے گئے کہ وہاں قبیلہ ثقیف کی بڑی جماعت ہے، اگر وہ قبیلہ مسلمان ہو جائے، تو مسلمانوں کو ان تکلیفوں سے نجات ملے اور دین کے پھیلنے کی بنیاد پڑ جائے۔
وہاں پہنچ کر قبیلہ کے تین سرداروں سے، جو بڑے درجے کے سمجھے جاتے تھے، گفتگو فرمائی اور الله کے دین کی طرف بلایا اور الله کے رسول کی یعنی اپنی مدد کی طرف متوجہ کیا؛ مگر ان لوگوں نے بجائے اس کے کہ دین کی بات کو قبول کرتے یا کم سے کم عرب کی مشہور مہمان نوازی کے لحاظ سے ایک نو وارد مہمان کی خاطر مدارات کرتے، صاف جواب دے دیا اور نہایت بے رخی اور بد اخلاقی سے پیش آئے۔ اُن لوگوں نے یہ بھی گوارا نہ کیا کہ آپ یہاں قیام فرمالیں۔
جن لوگوں کو سردار سمجھ کر بات کی تھی کہ وہ شریف ہوں گے اور مہذب گفتگو کریں گے، ان میں سے ایک شخص بولا کہ اوہو! آپ ہی کو الله نے نبی بنا کر بھیجا ہے۔ دوسرا بولا کہ الله کو تمہارے سوا کوئی اور ملتا ہی نہیں تھا، جس کو رسول بنا کر بھیجتے۔ تیسرے نے کہا کہ میں تجھ سے بات کرنا نہیں چاہتا، اس لیے کہ اگر تو واقعی نبی ہے، جیسا کہ دعویٰ ہے، تو تیری بات سے انکار کر دینا مصیبت سے خالی نہیں اور اگر جھوٹ ہے، تو میں ایسے شخص سے بات کرنا نہیں چاہتا۔
اس کے بعد ان لوگوں سے نا امید ہو کر حضور صلی الله علیہ وسلم نے اور لوگوں سے بات کرنے کا ارادہ فرمایا کہ آپ تو ہمت اور استقلال کے پہاڑ تھے؛ مگر کسی نے بھی قبول نہ کیا؛ بلکہ بجائے قبول کرنے کے، حضور صلی الله علیہ وسلم سے کہا کہ ہمارے شہر سے فوراً نکل جاؤ اور جہاں تمہاری چاہت کی جگہ ہو، وہاں چلے جاؤ۔
حضور صلی الله علیہ وسلم جب اُن سے بالکل مایوس ہو کر واپس ہونے لگے، تو اُن لوگوں نے شہر کے لڑکوں کو پیچھے لگا دیا کہ آپ کا مذاق اڑائیں، تالیاں پیٹیں، پتھر ماریں؛ حتی کہ آپ کے دونوں جوتے خون کے جاری ہونے سے رنگین ہو گئے۔ حضور صلی الله علیہ وسلم اسی حالت میں واپس ہوئے۔
جب راستہ میں ایک جگہ ان شریروں سے اطمینان ہوا، تو حضور صلی الله علیہ وسلم نے یہ دعا مانگی:
اَللّٰهُمَّ إِلَيْكَ أَشْكُوْ ضَعْفَ قُوَّتِىْ وَقِلَّةَ حِيْلَتِيْ وَهَوَانِىْ عَلَى النَّاسِ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِيْنَ أَنْتَ رَبُّ الْمُسْتَضْعَفِيْنَ وَأَنْتَ رَبِّىْ إِلٰى مَنْ تَكِلُنِىْ إِلٰى بَعِيْدٍ يَّتَجَهَّمُنِىْ أَمْ إِلٰى عَدُوٍّ مَلَّكْتَهُ أَمْرِىْ إِنْ لَّمْ يَكُنْ بِكَ عَلَىَّ غَضَبٌ فَلَا اُبَالِىْ وَلٰكِنْ عَافِيَتُكَ هِىَ أَوْسَعُ لِىْ أَعُوْذُ بِنُوْرِ وَجْهِكَ الَّذِىْ أَشْرَقَتْ لَهُ الظُّلُمَاتُ وَصَلُحَ عَلَيْهِ أَمْرُ الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ مِنْ أَنْ تُنَزِّلَ بِىْ غَضَبَكَ أَوْ يَحُلَّ عَلَىَّ سَخَطُكَ لَكَ الْعُتْبىٰ حَتّٰى تَرْضٰى وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِكَ
اے الله! تجھ ہی سے شکایت کرتا ہوں میں، اپنی کمزوری اور بے کسی کی اور لوگوں میں ذلت ورسوائی کی۔ اے ارحم الراحمین! تو ہی ضعفاء کا رب ہے اور تو ہی میرا پروردگار ہے۔ تو مجھے کس کے حوالہ کرتا ہے، کسی اجنبی بیگانہ کے، جو مجھے دیکھ کر ترش رو ہوتا ہے اور منھ چڑھاتا ہے یا کہ کسی دشمن کے، جس کو تو نے مجھ پر قابو دے دیا۔ اے الله! اگر تو مجھ سے ناراض نہیں ہے، تو مجھے کسی کی بھی پرواہ نہیں ہے۔ تیری حفاظت مجھے کافی ہے۔ میں تیرے چہرہ کے اُس نور کے طفیل، جس سے تمام اندھیریاں روشن ہو گئیں اور جس سے دنیا اور آخرت کے سارے کام درست ہو جاتے ہیں، اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ مجھ پر تیرا غصہ ہو یا تو مجھ سے ناراض ہو۔ تیری ناراضگی کا اس وقت تک دور کرنا ضروری ہے؛ جب تک تو راضی نہ ہو۔ نہ تیرے سوا کوئی طاقت ہے نہ قوت۔
مالک الملک کی شان قہاری کو اس پر جوش آنا ہی تھا کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آکر سلام کیا اور عرض کیا کہ الله تعالی نے آپ کی قوم کی وہ گفتگو، جو آپ سے ہوئی، سنی اور ان کے جوابات سنے اور ایک فرشتہ کو، جس کے متعلق پہاڑوں کی خدمت ہے، آپ کے پاس بھیجا ہے کہ آپ جو چاہیں، اس کو حکم دیں۔
اس کے بعد اس فرشتہ نے سلام کیا اور عرض کیا کہ جو ارشاد ہو، میں اس کی تعمیل کروں۔ اگر ارشاد ہو، تو دونوں جانب کے پہاڑوں کو مِلا دوں، جس سے یہ سب درمیان میں کچل جائیں اور جو سزا آپ تجویز فرمائیں۔
حضور صلی الله علیہ وسلم کی رحیم وکریم ذات نے جواب دیا کہ میں الله سے اس کی امید رکھتا ہوں کہ اگر یہ مسلمان نہیں ہوئے، تو ان کی اولاد میں سے ایسے لوگ پیدا ہوں، جو الله کی پرستش کریں اور اس کی عبادت کریں۔
ف: یہ ہیں اخلاق اس کریم ذات کے، جس کے ہم لوگ نام لیوا ہیں کہ ہم ذرا سی تکلیف سے، کسی کی معمولی سی گالی دینے سے، ایسے بھڑک جاتے ہیں کہ پھر عمر بھر اس کا بدلہ نہیں اترتا، ظلم پر ظلم اس پر کرتے رہتے ہیں اور دعوی کرتے ہیں اپنے محمدی ہونے کا، نبی کے پیرو بننے کا۔ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم اتنی سخت تکلیف اور مشقت اٹھانے کے باوجود، نہ بد دعا فرماتے ہیں، نہ کوئی بدلہ لیتے ہیں۔ (فضائلِ اعمال، حکایات صحابہ، ص ۹-۱۱)