عدت کی سنتیں اور آداب – ۲

شوہر کی وفات کے بعد بیوی کی عدت کے احکام

(۱) جب کسی عورت کے شوہر کا انتقال ہو جائے، تو اس پر عدت میں بیٹھنا واجب ہے۔

ایسی عورت کی عدت (جس کے شوہر کا انتقال ہو جائے اور وہ حاملہ نہ ہو) چار مہینے اور دس دن ہے۔

یہ حکم اس صورت میں ہوگا، جب شوہر کا انتقال قمری مہینے کی پہلی تاریخ پر ہو جائے۔

(۲) اگر شوہر کا انتقال قمری مہینے کے درمیان ہو جائے (یعنی شوہر کا انتقال مہینے کی دوسری تاریخ کو یا اس کے بعد ہو جائے)، تو اس صورت میں بیوی کی عدت ایک سو تیس دن ہوگی۔

(۳) اگر عورت حاملہ ہو اور اس کے شوہر کا انتقال ہو جائے، تو اس صورت میں اس کی عدت وضعِ حمل (بجّے کی پیدائش) تک ہوگی۔ جب بجّہ پیدا ہو جائے، تو اس کی عدت پوری ہو جائےگی، خواہ بچے کی پیدائش تک تھوڑی مدت گزر جائے یا زیادہ۔

(٤) عورت شوہر کے گھر میں عدت گزارےگی (یعنی اس گھر میں عدت گزارےگی، جہاں وہ شوہر کے ساتھ اس کی وفات کے وقت مقیم تھی)۔

عورت کے لیے بلا ضرورت گھر سے نکلنا جائز نہیں ہے۔

(٥) اگر عورت گھر سے باہر ہو اور اس کو شوہر کے انتقال کی خبر ملے، تو اسے چاہیئے کہ وہ فورا گھر لوٹ جائے اور عدت میں بیٹھے۔

(٦) اگر عورت اپنے شوہر کے انتقال کی وجہ سے عدت گزار رہی ہو، تو وہ اپنی ضروریات (کھانا، کپڑا وغیرہ) کا انتظام خود کرے۔

عورت کے لیے اپنے شوہر کے کُلْ تَرَکَہ کے مال (چھوڑے ہوئے مال) استعمال کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اس مال میں دوسرے ورثاء کا بھی حق ہے۔

البتہ اپنے شوہر کے میراث میں جو مال اس کا حصہ ہے، وہ اس مال کو استعمال کر سکتی۔

(۷) اگر کسی عورت کے شوہر کا انتقال اس کے وطن کے باہر ہو جائے، تو اس کے لیے جائز نہیں ہوگا کہ وہ جنازہ اور تدفین کی جگہ کی طرف سفر کرے؛ کیونکہ اس کی عدت اس کے شوہر کے انتقال کے فورًا بعد شروع ہوتی ہے۔

(۸) عورت کی عدت اس کے شوہر کے انتقال کے فورًا بعد شروع ہو جاتی ہے؛ خواہ عورت کو اس کے انتقال کے بارے میں علم تھا یا علم نہیں تھا۔

لہذا اگر عدت کی مدت گزرنے کے بعد (یعنی چار مہینے دس دن کے بعد) عورت کو اس کے شوہر کے انتقال کی خبر ملی، تو اس کی عدت پوری ہو گئی۔

لہذا اس کے ذمہ دوسری عدت میں بیٹھنا لازم نہیں ہوگا اور نہ وہ عدت کی مدت کے دوران گھر سے نکلنے کی وجہ سے گنہگار ہوگی؛ کیونکہ اس کو اس کے شوہر کے انتقال کے بارے میں علم نہیں تھا۔

اگر عدت کی مدت ختم ہونے سے پہلے عورت کو اس کے شوہر کے انتقال کے بارے میں علم ہوا، تو اس کے ذمہ بقیہ مدت کے لیے عدت میں بیٹھنا لازم ہوگا۔ وہ مدت جو اس کے علم کے بغیر گزری ہو، وہ مدت عدت میں شمار ہوگی۔

(۹) عورت کے لیے عدت کے دوران معاش کے حصول کے لیے گھر سے نکلنا جائز نہیں ہے۔

البتہ اگر اس کے لیے کوئی ذریعہ معاش نہ ہو اور کوئی اس کی مدد کرنے والا بھی نہ ہو، تو اس کے لیے معاش کے حصول کے لیے گھر سے نکلنا درست ہے؛ بشرطیکہ وہ رات سے پہلے گھر لوٹ آئے اور رات گھر میں گزارے۔

معاش کے حصول یا کسی صحیح عذر کے علاوہ معتدہ (عدت گزارنے والی عورت) کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ گھر سے نہ نکلے۔

چنانچہ عورت کے لیے عدت کے دوران کسی پروگرام میں شرکت کرنا یا بچوں کو اسکول وغیرہ لے جانا جائز نہیں ہے۔

(۱۰) عورت پر عدت کے دوران ایک کمرے میں بیٹھنا لازم نہیں ہے؛ بلکہ وہ گھر کے کسی بھی حصے میں جا سکتی ہے۔

(۱۱) عورت دورانِ عدت گھر کے بیرونی حصے (صحن یا گھر کے پیچھے کے حصے) میں بھی جا سکتی ہے؛ بشرطیکہ وہ اس کے گھر کا احاطہ میں ہو (یعنی کوئی غیر محرم آدمی اس کو نہ دیکھ پائے)۔

(۱۲) عورت کے لیے دورانِ عدت منگنی کرنا اور تقریبات (شادی بیاہ اور ولیمہ وغیرہ) میں شرکت کرنا جائز نہیں ہے۔

(۱۳) وہ عورت جس کے شوہر کا انتقال ہو گیا ہو اور وہ عدت گزار رہی ہو، اس کے ماہانہ اخراجات اسی کے ذمہ ہوں گے۔

اس کے شوہر کے خاندان اس کے اخراجات کے ذمہ دار نہیں ہوں گے؛ البتہ اگر وہ اپنی ضرورتیں پوری نہیں کر سکتی ہے، تو اس کے (یعنی عورت کے) گھر والوں کو اس کی ضرورتیں پوری کرنے میں اس کی مدد کرنی چاہیئے۔

Check Also

زکوٰۃ کی سنتیں اور آداب – ۱

زکوٰۃ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے۔ زکوٰۃ سن ۲ …