امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری – پانچویں قسط

لوگوں کی اصلاح کے وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انداز ‏

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر (نیک کاموں کا حکم دینا اور برے کاموں سے روکنا) دین کا ایک اہم فریضہ ہے؛ لیکن انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ جس چیز کی اصلاح کرنا چاہتا ہے، اس کے بارے میں اس کو علم ہو، نیز اس کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیئے کہ اصلاح کا کون سا طریقہ کس جگہ زیادہ مؤثر اور کارگر ہوگا۔

لہذا اگر کوئی شخص نیا مسلمان ہو یا وہ اسلام کے احکام سے نا واقف ہو، تو ایسے شخص کی اصلاح کرنے کے وقت سختی نہیں کرنی چاہیئے؛ کیوں کہ وہ جہالت اور ناواقفیت کی بنا پر غلطی کر رہا ہے؛ بلکہ اس کو شفقت ومحبت کے ساتھ دین کی تعلیم دی جائے۔

ذیل میں سیرتِ نبوی کے دو واقعے نقل کیے جارہے ہیں، جن سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوتی ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم لوگوں کی اصلاح کس طرح کرتے تھے۔

پہلا واقعہ عام آدمی (غیر عالم) کی اصلاح کے بارے میں ہے اور دوسرا واقعہ عالم کی اصلاح کے بارے میں ہے۔

ایک اعرابی کی اصلاح کا واقعہ

حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی مسجد میں داخل ہوا، مسجد میں داخل ہونے کے بعد اس نے دو رکعت نماز پڑھی، پھر اس نے مندرجہ الفاظ سے دعا کی: اے الله! تو مجھ پر اور محمد صلی الله علیہ وسلم پر اپنا خاص رحم فرما اور ہمارے ساتھ کسی اور پر رحم نہ فرما!

اس اعرابی کی دعا سن کر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم اس کی طرف متوجہ ہوئے اور اس سے فرمایا:

تم نے ایک وسیع چیز کو بہت تنگ کر دیا (یعنی الله تعالی کی رحمت تو بہت وسیع ہے اور پوری مخلوق کا احاطہ کر سکتی ہے؛ لیکن تم نے اپنی دعا میں اس کو صرف دو آدمیوں کے ساتھ خاص کر کے تنگ کردیا)۔

پھر اس اعرابی نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیا: قیامت کب آئے گی؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس سے دریافت کیا: تم نے اس کی کیا تیاری کر رکھی ہے؟ اس نے کہا: میں نے اس کے لیے نہ بہت سی نمازیں پڑھی، نہ بہت سے روزے رکھا اور نہ بہت سے صدقات دی؛ مگر مجھے الله اور الله کے رسول سے محبت ہے، پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: تم (قیامت میں) اسی کے ساتھ ہوگے، جس سے تم محبت کرتے ہو۔

جب صحابہ کرام رضی الله عنہم نے یہ عظیم فضیلت سنی، تو انہوں نے حضرت رسول الله صلی الله علیہ سے عرض کیا: ہمارے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوگا؟ (یعنی کیا یہ ثواب اور فضیلت ہمارے لیے بھی ہوگی) نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، تمہارے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوگا (یعنی تم کو بھی یہی ثواب اور فضیلت ملےگی)۔ (مسند احمد، الرقم: ۱۲۹۹۳)

اس کو سن کر صحابہ کرام رضی الله عنہم بہت زیادہ خوش ہوئے۔ اس حدیث کے راوی حضرت انس رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے صحابہ کرام کو اسلام لانے کے بعد کسی اور چیز سے اتنا خوش ہوتے ہوئے نہیں دیکھا، جتنا اس دن خوش ہوتے ہوئے دیکھا۔ (مسند احمد، الرقم: ۱۲۸۲۳)

رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے قیامت کے بارے میں دریافت کرنے کے بعد اس اعرابی کو قضائے حاجت کی ضرورت پیش آئی، تو وہ اٹھے اور مسجد کے ایک کونے میں جا کر پیشاب کرنے لگے (کیوں کہ وہ نئے مسلمان تھے اور وہ مسجد کے آداب سے واقف نہیں تھے)۔

جب صحابہ کرام رضی الله عنہم نے یہ دیکھا، تو وہ جلدی سے اس کی طرف بڑھے اور اس کو ڈانٹا؛ لیکن نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ان کو ڈانٹنے سے منع فرمایا اور ان سے فرمایا کہ اس کو چھوڑ دو؛ اس لیے کہ ہو سکتا ہے کہ وہ اہلِ جنت میں سے ہے۔ (سنن دار قطنی، الرقم: ٤٧٨)

جب وہ اعرابی اپنی ضرورت سے فارغ ہوئے، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی الله عنہم کو حکم دیا کہ وہ اس جگہ پر پانی بہائے، جہاں اس اعرابی نے پیشاب کیا تھا، پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی الله عنہم سے فرمایا:

الله تعالى نے تم کو صرف امت میں آسانی کرنے والے بنائے۔ تم کو تنگی کرنے والے نہیں بنائے (لہذا تمیں چاہیئے کہ تم لوگوں پر شفقت کرو)۔

اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص عدم علم کی بنا پر غلطی کرے، تو اصلاح کرنے والے کو چاہیئے کہ وہ اس کی اصلاح کے وقت اس سے نرمی سے پیش آئے اور اس کے ساتھ سختی نہ کرے۔

پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس اعرابی کو بلایا اور انتہائی نرمی اور شفقت سے فرمایا:

یہ مسجدیں الله کے گھر ہیں، یہ مسجدیں پیشاپ اور گندگی کے لیے نہیں بنائی گئی ہیں؛ بلکہ یہ صرف الله تعالی کے ذکر، نماز کی ادائیگی اور قرآن کریم کی تلاوت کے لیے بنائی گئی ہیں۔

حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اتنی شفقت ومحبت کے ساتھ اس اعرابی کی اصلاح فرمائی کہ اس نے پوری زندگی اس واقعہ کو فراموش نہیں کیا؛ چنانچہ جب وہ اس واقعہ کو یاد کرتے تھے، تو وہ لوگوں سے فرماتے تھے:

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم میری طرف بڑھے۔ میرے ماں باپ ان پر قربان ہو۔ انہوں نے نہ مجھے برا بھلا کہا، نہ مجھے ڈانٹا اور نہ مجھے مارا؛ (بلکہ آپ نے میری اصلاح کی اور نہایت ہی مہربانی کے ساتھ اور محبت بھرے انداز میں مجھے تعلیم دی)۔

ایک عالم کی اصلاح کا واقعہ

ایک روایت میں آیا ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص نے مسجد میں کچھ لوگوں کی امامت کی۔ نماز پڑھتے ہوئے اس نے قبلے کی جانب تھوک دیا۔

آپ صلی الله علیہ وسلم کو اس کا علم ہوا، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا: آئندہ یہ شخص تمہاری امامت نہ کرے، (اس لیے کہ اس نے مسجد کی بے ادبی کی)۔

اس کے بعد اس شخص نے لوگوں کی امامت کا ارادہ کیا؛ لیکن لوگوں نے اس کو روک دیا اور اس کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی بات بتائی۔

جب وہ شخص نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے پاس آیا، تو اس نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں (میں نے منع کیا ہے)۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا: تم نے الله اور اس کے رسول کو تکلیف پہنچائی ہے۔

ان دونوں واقعوں سے ہم سمجھتے ہیں کہ لوگوں کی اصلاح کرنے میں آپ صلی الله علیہ وسلم کا طریقہ اور انداز کیا تھا اور آپ صلی الله علیہ وسلم کس انداز سے لوگوں کی اصلاح اور تربیت فرماتے تھے۔

جس شخص کے پاس علمِ دین تھا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے سختی سے اس کی اصلاح فرمائی؛ کیوں کہ اس نے بے توجہی اور غفلت کی وجہ سے غلطی کی تھی؛ لہذا ایسی صورت میں سختی کی ضرورت تھی۔

جس کے پاس علمِ دین نہیں تھا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے نرمی سے اس کی اصلاح فرمائی؛ کیوں کہ اس نے عدم علم کی بنا پر غلطی کی تھی۔

خلاصہ بات یہ ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے اپنے طرز عمل سے پوری امت کے لیے اصلاح کا طریقہ سکھایا۔

Check Also

اتباع سنت کا اہتمام – ۱۰

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ – قسط دوم حضرت مولانا اشرف علی …