نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لكل نبي رفيق في الجنة، ورفيقي فيها عثمان بن عفان (سنن ابن ماجه، الرقم: 109)
جنت میں ہر نبی کا ایک رفیق ہوگا اور میرا رفیق (جنت میں) عثمان بن عفان ہوگا۔
جنت میں کنواں خریدنا
جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچے، تو انہوں نے دیکھا کہ مدینہ منورہ میں جو پانی تھا، وہ تھوڑا کڑوا تھا؛ لہذا ان کے لیے اس کو پینا مشکل تھا۔
البتہ وہاں میٹھے پانی کا ایک کنواں تھا، جس کا نام بئر رومہ تھا اور وہ ایک یہودی کے زیر ملکیت تھا۔ وہ یہودی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس کنویں کا پانی فروخت کیا کرتا تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے دریافت کیا:
کون ہے جو بئر رومہ خریدےگا اور مسلمانوں کے لیے وقف کر دےگا؛ تاکہ وہ اس کنویں سے پانی نکالنے میں دوسرے مسلمانوں کے برابر ہو جائے اور اس کے بدلہ اس کو جنت میں ایک کنواں ملےگا؟
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اس یہودی کے پاس گئے، جو کنویں کا مالک تھا اور اس سے بئر رومہ خریدنے کی پیش کش کی۔ اس نے پورا کنواں فروخت کرنے سے انکار کر دیا اور صرف آدھا کنواں بارہ ہزار درہم میں فروخت کیا۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بارہ ہزار درہم ادا کر دیئے اور اس کنویں کو مسلمانوں کے لیے وقف کردیا۔
پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس یہودی سے کہا:
اگر تم چاہو، تو ہم اس کنویں میں دو بالٹی لٹکا دیں؛ (تاکہ ہم دونوں ایک وقت میں اس کا پانی استعمال کر سکیں) یا اگر تم چاہو، تو ایک دن میں اس کا پانی استعمال کروں اور اگلے دن تم اس کا پانی استعمال کرو۔
یہودی نے جواب دیا:
مجھے دوسری صورت منظور ہے یعنی ہم باری باری اس کا استعمال کریں گے۔
اس کے بعد جس دن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی باری ہوتی تھی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس کنویں کے پاس آتے تھے اور اتنا پانی نکالتے تھے، جو دو دن کے لیے کافی ہوتا تھا۔
جب اس یہودی نے دیکھا کہ اب مسلمان پانی نہیں خرید رہے ہیں، تو اس نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تم نے میرا کنواں برباد کردیا (اس لیے کہ اب کوئی بھی شخص پانی خریدنے کے لیے نہیں آرہا ہے)، تم مجھ سے دوسرا آدھا بھی کیوں نہیں خرید لیتے؟
چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے آٹھ ہزار درہم میں دوسرا آدھا بھی خرید لیا اور مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا۔ (استیعاب ۳/۱۵۷)