اتباع سنت کا اہتمام – ‏۵

حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندی رحمہ اللہ

حضرت شیخ  الہند مولانا محمود الحسن دیوبندی رحمہ اللہ ہندوستان کے ایک جلیل القدر عالم دین تھے۔ ان کی ولادت سن ۱۲۶۸ ھجری میں (بہ مطابق سن ۱۸۵۱ عیسوی) ہوئی۔ ان کا سلسلہ نسب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ تک پہونچتا ہے اور وہ دار العلوم دیوبند کے پہلے طالب علم تھے۔

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے انہیں دار العلوم دیوبند میں چوالیس سال تک پڑھانے کا موقع عطا فرمایا تھا۔ اس دوران ہزاروں طلبہ نے ان سے استفادہ کیا۔ ان میں سے حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ اور علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ سر فھرست ہیں۔

 ذیل میں دو واقعے نقل کئے جا رہے ہیں، ان سے اس بات کی عکّاسی ہوتی ہے کہ حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندی رحمہ اللہ احکام دین اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت پر کتنی پاپندی سے عمل کرتے تھے:

پردہ کے بارے میں شریعت کی اتباع

ہندوستان پر قبضہ کرنے کے بعد انگریزوں نے مسلمانوں پر ظلم وستم شروع کر دیا او شعائر اسلام کو مٹانے لگے، جب حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ نے یہ صورت حال دیکھی، تو وہ بے چین ہو گئے اور تحریک خلافت کا آغاز کر دیا اور انگریزوں کے خلاف جہاد کا اعلان بھی کر دیا؛ تاکہ ان کا ہندوستان سے اخراج کر دیا جائے؛ لیکن کسی طریقہ سے انگریزوں کو حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ کے منصوبے کا علم ہو گیا اور انہوں نے ان کو گرفتار کر کے مالٹا کی جیل میں ڈال دیا۔ حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ تقریباً تین سال مالٹا کی جیل میں رہے۔

جوں ہی حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ کو گرفتار کیا گیا ہے، ان کے شاگرد رشید حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ فوراً پولیس کے پاس آئے اور اس سے کہا کہ مجھے بھی گرفتار کر لو؛ تاکہ وہ اپنے پیارے استاذ کے ساتھ جیل میں رہ سکیں، جو اس وقت بیمار اور کمزور تھے اور ان کی خدمت کر سکیں؛ چنانچہ انہیں بھی گرفتار کر لیا گیا۔ جب تک دونوں جیل میں رہے، شاگرد نے پوری شفقت ومحبّت کے ساتھ اپنے استاذ کی خدمت کی۔

جب حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ کی رہائی ہوئی اور آپ ہندوستان واپس آئے، تو حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ کا پورا خاندان حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کا بے پناہ ممنون ومشکور تھا، خاص طور پر حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ کی اہلیہ بہت زیادہ متأثر تھیں؛ کیونکہ حضرت مدنی رحمہ اللہ کا بچپن دیوبند میں گزرا تھا اور ان کا حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ کے گھر آنا جانا تھا؛ اس لیے حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ کی اہلیہ کے دل میں ان کے لیے بہت زیادہ محبت تھی۔

چنانچہ جب حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ کی اہلیہ محترمہ ضعیف العمر ہو چکی تھیں، ان کی خواہش تھی کہ وہ پردہ کے بغیر حضرت مولانا مدنی رحمہ اللہ سے بات کریں؛ تاکہ وہ  ذاتی طور پر ان کا شکریہ ادا کریں کہ انہوں نے حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ کا جیل کے اندر بہت زیادہ خیال رکھا اور ان کی ہر طرح سے خدمت کی۔

جب انہوں نے حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ سے اپنی خواہش کا اظہار کیا، تو حضرت رحمہ اللہ نے انتہائی رقّت آمیز لہجے میں فرمایا کہ اگر جیل میں میرے ساتھ  میرا بیٹا ہوتا، تو وہ اتنی خدمت نہیں کر سکتا تھا، جتنی خدمت حسین احمد نے کی تھی۔ میرا دل بھی چاہتا ہے کہ تم ذاتی طور پر ان کا شکریہ ادا کرو؛ مگر شریعت کا حکم ہے کہ نامحرم مردوں سے پردہ کیا جائے؛ لہذا اگر تم حسین احمد سے بغیر پردہ کے بات کروگی، تو تم گنہگار ہوگی۔

حضرت شیخ  الہند رحمہ اللہ کی اہلیہ بھی بہت دین دار تھیں؛ لہذا انہوں نے حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ کی بات قبول کی اور جب حضرت مدنی رحمہ اللہ ان کی زیارت کے لیے آتے تھے، تو وہ اس بات کا اہتمام کرتی تھیں کہ وہ پردہ کے پیچھے رہیں۔

امت مسلمہ کے درمیان اتحاد واتفاق پیدا کرنا اور دین کے احیا کی فکر

مالٹا کی قید سے واپس آنے کے بعد ایک رات بعد عشاء حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ دار العلوم میں تشریف فرما تھے۔ علماء کا بڑا مجمع سامنے تھا۔ اس وقت فرمایا: ہم نے تو مالٹا کی زندگی میں دو سبق سیکھے ہیں۔

 یہ الفاظ سن کر سارا مجمع ہمہ تن گوش ہو گیا کہ اس استاذ العلماء درویش نے اسّی سال علماء کو درس دینے کے بعد آخر عمر میں جو سبق سیکھے ہیں، وہ کیا ہیں؟

فرمایا کہ:

میں نے جہاں تک جیل کی تنہائیوں میں اس پر غور کیا کہ پوری دنیا میں مسلمان دینی اور دنیوی ہر حیثیت سے کیوں تباہ ہو رہے ہیں، تو اس کے دو سبب معلوم ہوئے:

(۱) ایک ان کا قرآن کریم کو چھوڑ دینا۔

(۲) دوسرے آپس کے اختلافات اور خانہ جنگی۔

اس لیے میں وہیں سے یہ عزم لے کر آیا ہوں کہ اپنی باقی زندگی اس کام میں صرف کروں کہ قرآن کریم کو لفظاً اور معنیً عام کیا جائے۔

بچوں کے لیے لفظی تعلیم کے مکاتب ہر ہر بستی میں قائم کیے جائیں۔ بڑوں کو عوامی درس قرآن کریم کی صورت میں اس کے معانی سے روشناس کرایا جائے اور قرآنی تعلیمات پر عمل کے لیے آمادہ کیا جائے۔

اسی طرح مسلمانوں کے باہمی جنگ وجدال کو کسی قیمت پر برداشت نہ کیا جائے۔ (جواہر پارے ۳/۳۳)

Check Also

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری – نویں قسط

چار ذمہ داریاں – دین کے تحفظ کی بنیاد دنیا میں دین قائم کرنے کے …