خلع
اگر میاں بیوی کے درمیان مصالحت ممکن نہ ہو اور شوہر طلاق دینے سے انکار کرے، تو بیوی کے لیے جائز ہے کہ وہ شوہر کو کچھ مال یا اپنا مہر دے دے اور اس کے بدلہ طلاق لے لے۔
اگر شوہر نے اب تک مہر ادا نہیں کیا ہے، تو بیوی شوہر سے کہ سکتی ہے کہ مجھے مہر مت دو اور اس کے بدلہ مجھے طلاق دے دو۔
اس طریقے سے اگر کوئی عورت اپنے شوہر سے علیحدگی اختیار کرتی ہے، تو اس کو ’خلع‘ کہا جاتا ہے۔
جب بیوی شوہر سے مال کے بدلہ طلاق کی درخواست کرے اور شوہر اس سے کہے کہ میں نے تم کو مال کے بدلہ چھوڑ دیا یا میں نے مہر کے بدلہ خلع قبول کر لیا، تو خلع صحیح ہوگا اور ایک طلاق بائن واقع ہو جائے گی۔
اس کے بعد شوہر کو رجوع کرنے کا حق حاصل نہیں ہوگا۔
خلع کے صحیح ہونے کے لیے شرط یہ ہے کہ بیوی کی طرف سے مال کی پیشکش اور شوہر کی طرف قبول کرنا دونوں ایک ہی مجلس میں پائے جائیں۔
چنانچہ اگر شوہر نے اسی مجلس میں خلع قبول نہیں کیا؛ بلکہ دوسری مجلس میں قبول کیا یا بیوی شوہر کے قبول کرنے سے پہلے مجلس سے اٹھ گئی، تو دونوں صورتوں میں خلع صحیح نہیں ہوگا۔
خلع کے بارے میں شریعت کا حکم
خلع کے بارے میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ اگر نکاح کے حقوق کی خلاف ورزی بیوی کی طرف سے ہو، تو اس صورت میں شوہر کے لیے جائز ہوگا کہ وہ اپنے مہر کا مطالبہ کرے۔ شوہر کے لیے مہر کی رقم سے زیادہ کا مطالبہ کرنا مکروہ تنزیہی ہوگا۔
اگر نکاح کے حقوق کی خلاف ورزی شوہر کی طرف سے ہو، تو اس صورت میں شوہر کے لیے بیوی سے کسی بھی چیز کا مطالبہ کرنا جائز نہیں ہوگا اور مکروہ تحریمی ہوگا۔
صرف شوہر خلع کر سکتا ہے؛ چنانچہ اگر بیوی عدالت میں مقدمہ دائر کرے اور قاضی سے خلع کا فیصلہ طلب کرے، تو قاضی شوہر کے بغیر خلع کا فیصلہ نہیں کر سکتا ہے۔
اگر قاضی شوہر کے بغیر خلع کا فیصلہ کرے، تو خلع درست نہیں ہوگا۔