كان سيدنا رسول الله صلى الله عليه وسلم جالسا مع أصحابه مرة، فنظر إلى سيدنا أبي بكر رضي الله عنه وقال: هذا عتيق الله من النار فيومئذ سمي سيدنا أبو بكر رضي الله عنه عتيقا (مسند البزار، الرقم: ٢٢١٣، مجمع الزوائد، الرقم: ١٤٢٨٩)
ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھا اور فرمایا کہ اللہ تعالی نے اس شخص (حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ) کو جہنم کی آگ سے آزاد کر دیا ہے۔
اسی موقع پر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالی کی طرف سے العتیق کا لقب ملا۔
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا احترام اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں ان کی محبت
فتحِ مکہ کے موقع پر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اپنے والد ابو قحافہ کو لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے؛ تاکہ وہ اسلام قبول کریں۔ اس وقت ابو قحافہ نوے سال کے تھے اور ان کی بینائی چلی گئی تھی۔
جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہونچے، تو آپ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: تم نے اس بوڑھے آدمی (ابو قحافہ) کو اپنی جگہ پر کیوں نہیں چھوڑا؛ تاکہ میں خود ان کے پاس پہونچ جاتا؟
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: نہیں، آپ کیسے ان کے پاس پہنچ جاویں؛ حالنکہ آپ اس بات کے زیادہ حق دار ہیں کہ وہ آپ کے پاس آئے (یعنی اگرچہ وہ میرے والد ہے؛ لیکن آپ اللہ کے رسول ہیں؛ لہذا آپ زیادہ ادب واحترام کے مستحق ہیں؛ اس لیے ہمیں آپ کی خدمت میں حاضر ہونا چاہئے)۔
ایک دوسری روایت میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اس بات کی ایک دوسری وجہ بیان کی ہے کہ انہوں نے یہ کیوں چاہا کہ ان کے والد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں نہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس جائیں۔
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے اللہ کے رسول! میں نے یہ خواہش کی کہ میرے والد آپ کے پاس آئیں؛ تاکہ ان کی یہ آمد ان کے لیے اللہ تعالی کے یہاں ثواب کا ذریعہ بنے (کہ انہوں نے بڑھاپے اور اندھے پن کے باوجود آپ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے مشقت اٹھائی)۔
یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم ان کا اعزاز کریں گے (یعنی ہم خصوصی طور پر ابو قحافہ رضی اللہ عنہ کا لحاظ وخیال رکھیں گے)؛ کیوں کہ ان کے صاحبزادہ ابو بکر (رضی اللہ عنہ) نے ہمیں بہت زیادہ نفع پہنچایا۔
اس کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اپنے والد کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بٹھایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سینے پر ہاتھ پھیر کر فرمایا: اسلام قبول کرلو، تمہیں نجات ملےگی۔
ابو قحافہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعوت قبول کرلی اور اسی وقت اسلام میں داخل ہوگئے۔ (مجمع الزوائد ومستدرک حاکم)