طلاق کی سنتیں اور آداب – ۳

طلاق کی سنتیں اور آداب

(۱) شوہر جلد بازی یا غصّہ کی حالت میں اپنی بیوی کو طلاق نہ دے؛ بلکہ طلاق دینے سے پہلے اس کو چاہیئے کہ وہ سنجیدگی سے اس معاملہ پر اچھی طرح غور وفکر کرے۔ اچھی طرح غور وفکر کرنے کے بعد اگر اس کو محسوس ہو کہ ان دونوں کے درمیان نباہ کی کوئی صورت نہیں ہے یا ان دونوں کے لئے ساتھ رہنا بہت مشکل ہے، تو پھر وہ طلاق دے۔

(۲) شوہر کو چاہیئے کہ جب وہ طلاق دے، تو وہ صرف ایک طلاق رجعی دے۔ ایک طلاق رجعی دینے کے بعد بیوی عدّت میں بیٹھے گی۔

شوہر کے لئے بہتر یہ ہے کہ عدّت ختم ہونے تک اپنی بیوی کو دوسری طلاق نہ دے۔

(۳) جب شوہر طلاق دینے کا ارادہ کرے، تو اس کو چاہیئے کہ وہ اپنی بیوی کو ایسے طہر (پاکی کی حالت میں جب بیوی حائضہ ہو) میں طلاق دے، جس (طہر ) کے شروع ہی سے اس نے اس کے ساتھ ہمبستری نہ کی ہو۔ (یعنی سابقہ حیض کے ختم ہونے کے بعد سے اس نے اپنی بیوی کے ساتھ ہمبستری نہیں کی)۔

شریعت نے شوہر کویہ حکم اس لئے دیا ہے تاکہ بیوی کو یہ بات معلوم ہو جائے کہ اس کی عدّت کی مدت تین حیض ہے۔

اگر شوہر اس کو ایسے طہر میں طلاق دے دے جس طہر میں اس نے اس کے ساتھ ہمبستری کی، تو بیوی کو معلوم نہیں ہوگا کہ اس کی عدت تین حیض ہے یا وضع حمل ہے۔ حاملہ ہونے کی صورت میں کیونکہ حاملہ عورت کی عدت وضع حمل ہے(وضع حمل سے مراد بچہ کی پیدائش ہے)۔

(۴) اگر شوہر اس طہر میں اپنی بیوی کو طلاق دے، جس میں اس نے اس کے ساتھ ہمبستری کی ہو، تو اگر چہ جو کچھ اس نے کیا وہ اچھا نہیں ہے، لیکن طلاق واقع ہو جائےگی۔

(۵) جب شوہر اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہے، تو اس کو چاہیئے کہ وہ ایک طہر میں صرف ایک طلاق رجعی دے۔ شوہر ایک طہر میں ایک طلاق رجعی سے زیادہ نہ دے۔

اگر شوہر ایک طہر میں ایک طلاق رجعی سے زیادہ دے یا وہ ایک ساتھ دو یا تین طلاق دے، تو وہ گنہگار ہوگا اور اس کا یہ عمل خلاف سنّت بھی ہوگا، لیکن گنہگار ہونے کے باوجود سب طلاقیں واقع ہو جائیں گی۔

(٦) بیوی کو حالتِ حیض میں طلاق دینا جائز نہیں ہے؛ یہ مسئلہ چاروں مذاہب کے یہاں متفق علیہ ہے؛ اگر شوہر اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے، تو وہ گنہگار ہوگا، لیکن گنہگار ہونے کے باوجود چاروں مذاہبِ کے نزدیک طلاق واقع ہو جائےگی۔

(۷) اگر شوہر نے اپنی بیوی کو حالتِ حیض میں طلاق دے دی، تو اسے چاہیئے کہ فوراً رجوع کرے اور اپنی بیوی کو اپنے نکاح میں واپس لے لے۔

اس کے بعد اگر وہ اس کو طلاق دینا چاہے، تو اس کو چاہے کہ وہ انتظار کرے یہاں تک کہ بیوی کی ایک حیض اور ایک طہر گزر جائے۔ پہر ایک حیض اور ایک طہر گزرنے کے بعد شوہر مزید انتظار کرے یہاں تک کہ ایک اور حیض گزر جائے، پہر اگر وہ اس کو طلاق دینا چاہے، تو وہ اس طہر میں (پاکی کی حالت میں) اس کو ایک طلاق رجعی دے دے۔

(۸) اگر شوہر سنّت طریقہ کے مطابق اپنی بیوی کو تین طلاق دینا چاہے، تو اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ وہ اس کو تین الگ الگ طہر کے شروع میں ایک ایک طلاق دے (یعنی تین طہر میں تین طلاق دے)۔

اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب بیوی حیض سے پاک ہو جائے، تو شوہر طہر کے شروع میں اس کو ایک طلاق دے۔ پھر وہ دوسرے طہر کا انتظار کرے اور جب دوسرا طہر آوے، تو وہ دوسرے طہر کے شروع میں دوسری طلاق دے پھر اسی طرح وہ تیسرے طہر کے شروع میں تیسری طلاق دے۔

واضح رہے کہ تینوں طہر میں ہمبستری سے اجتناب ضروری ہے اور اگر وہ ہمبستری کر لے، تو اگر وہ طلاق دے، تو طلاق واقع ہو جائےگی؛ لیکن اس کے طلاق دینے کا یہ طریقہ سنّت طریقہ کے مطابق نہیں ہوگا۔


[۱]

Check Also

زکوٰۃ کی سنتیں اور آداب – ۱

زکوٰۃ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے۔ زکوٰۃ سن ۲ …