قرآن مجید کی سنتیں اور آداب
(۱) قرآن مجید کی تلاوت کرنے سے پہلے اس بات کا اہتمام کریں کہ آپ کا منھ صاف ہو۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بےشک تمہارے منھ قرآن مجید کے لئے راستے ہیں (یعنی قرآن مجید کی تلاوت منھ سے کی جاتی ہے)؛ لہذا اپنے منھ کو مسواک سے صاف کیا کرو۔
(۲) قرآن مجید کو انتہائی ادب واحترام کے ساتھ پکڑیں اور اس کو تعظیم کے ساتھ ہمیشہ اونچی جگہ پر رکھیں۔ قرآن مجید کو زمین پر نہ رکھیں یا کسی ایسی جگہ پر نہ رکھیں جو بے ادبی کا باعث ہو۔
(۳) قرآن مجید کے اوپر کوئی چیز نہ رکھیں؛ یہاں تک کہ دینی کتاب بھی قرآن مجید پر نہ رکھیں۔
(۴) قرآن مجید کو بغیر وضو کے مت چھوئیں۔ قرآن مجید کو بغیر وضو کے چھونا جائز نہیں ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قرآن مجید کو صرف وہ شخص چھوئے جو باوضو ہو۔
(۵) مستحب یہ ہے کہ قرآن مجید پڑھنے والا قرآن مجید کی تلاوت کے وقت باوضو ہو، اس کے کپڑے صاف ہوں اور اس کا رخ قبلے کی طرف ہو؛ لیکن قرآن مجید کی تلاوت کے وقت اگر قرآن مجید پڑھںے والا قبلے کی طرف رخ نہ کرے یا وہ باوضو نہ ہو، تو کوئی حرج نہیں ہے؛ بشرطیکہ وہ قرآن مجید کو ہاتھ سے نہ چھوئے۔
(۶) موبائل میں دیکھ کر بے وضو قرآن مجید پڑھنا جائز ہے۔ البتہ اسکرین کے اس حصہ کو نہ چھوئیں، جہاں قرآن مجید کی آیتیں ہوں۔
نوٹ: یہ بات ذہن میں رہنی چاہیئے کہ موبائل میں دیکھ کر قرآن مجید کی تلاوت کرنا اگر چہ جائز ہے، مگر قران مجید ہی سے تلاوت کرنا بہتر ہے؛ کیونکہ اس میں قرآن مجید کا زیادہ ادب واحترام ہے اور یہ قرآں مجید پڑھنے کا اصل طریقہ ہے۔
اس کے بر عکس موبائل میں دیکھ کر قرآن مجید کی تلاوت کرنا پسندیدہ نہیں ہے؛ کیونکہ بہت سی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ موبائل میں جاندار چیزوں کی تصویریں ہوتی ہیں، نیز موبائل کے ذریعہ بہت سے گناہوں کا ارتکاب بھی کیا جاتا ہے؛ لہذا یہ قرآن مجید کی بے حرمتی کا سبب بن سکتا ہے۔ اس لئے بہتر یہ ہے کہ قرآن مجید موبائل میں دیکھ کر نہ پڑھا جائے۔ چنانچہ قرآں مجید کے حقوق وآداب اور تعظیم وتکریم کا تقاضہ یہ ہے کہ باوضو قرآن مجید میں دیکھ کر اس کی تلاوت کی جائے؛ تاکہ قرآن مجید کی عظمت وعزّت صحیح طریقہ سے کی جائے۔
(۷) روزانہ قرآن مجید کی تلاوت کے لئے کچھ وقت مقرّر کر لیں۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے جیسا کہ لوہے کو پانی لگنے سے زنگ لگتا ہے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا: اے اللہ کے رسول ! ان کی صفائی کی کیا صورت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: موت کو کثرت سے یاد کرنا اور قرآن مجید کی تلاوت کرنا۔
(۸) قرآن مجید کے حقوق میں سے ایک حق یہ ہے کہ اس کے معانی میں غور کیا جائے؛ تاکہ قرآن مجید کے احکامات پر صحیح طریقے سے عمل ہو سکے؛ لہذا قرآن مجید کی تلاوت کے ساتھ ساتھ اس کی مختلف سورتوں کے معانی کو بھی سیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ قرآن مجید کے معانی بذات خود سمجھنے کی کوشش نہ کریں؛ بلکہ کسی معتمد عالم کی زیر نگرانی میں سکھیں۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اَفَلَا یَتَدَبَّرُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ اَمۡ عَلٰی قُلُوۡبٍ اَقۡفَالُہَا ﴿۲۴﴾
تو کیا یہ لوگ قرآن (کی آیات اور معانی) میں غور نہیں کرتے یا (ان کے) دلوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں۔
(۹) قرآن مجید کی تلاوت شروع کرنے سے پہلے تعوّذ (اعوذ بالله) پڑھیں۔
الله تعالیٰ فرماتے ہیں:
فَاِذَا قَرَاۡتَ الۡقُرۡاٰنَ فَاسۡتَعِذۡ بِاللّٰهٍ مِنَ الشَّیۡطٰنِ الرَّجِیۡمِ ﴿۹۸﴾
جب آپ قرآن پڑھنے لگیں، تو الله کی پناہ مانگیں شیطان مردود سے۔
(۱۰) جب تمہارا دل قرآن مجید کی تلاوت کی طرف مائل ہو، تو قرآن مجید پڑھتے رہو اور جب تم تھک جاؤ اور تمہیں محسوس ہو کہ تمہارا دل قرآن مجید کی تلاوت کی طرف مائل نہ ہو، تو تم تلاوت موقوف کر دو۔ پھر جب تمہارا دل قرآن مجید کی تلاوت کی طرف مائل ہو جائے، تو تم توجّہ اور دل چسپی کے ساتھ تلاوت کرو۔
حضرت جندب بن عبد الله رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم قرآن مجید پڑھو جب تک تمہارے دل (قرآن مجید کی طرف) متوجہ ہو اور جب تمہیں محسوس ہو کہ تمہارے دل میں ملال آوے (یعنی تھک جانے کی وجہ سے تمہارے دل تلاوت کی طرف مائل نہ ہو)، تو تم اٹھ کھڑے ہو (یعنی تلاوت موقوف کر دو)۔(صحیح البخاری)
(۱۱) تجوید اور صحیح تلفظ کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کریں؛ یہاں تک کہ اگر آپ تیزی سے بھی قرآن مجید کی تلاوت کر رہے ہوں، تو اس بات کا اہتمام کریں کہ آپ ہر لفظ تجوید اور صحیح تلفظ کے ساتھ ادا کریں۔
الله تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَرَتِّلِ الۡقُرۡاٰنَ تَرۡتِیۡلًا
اور آپ قرآن مجید کو (اطمینان کے ساتھ) خوب صاف صاف پڑھیں۔
ایک روایت میں آیا ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص حضرت عبد الله بن مسعود رضی الله عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ میں نماز کی ایک ہی رکعت میں تمام مفصل سورتیں پڑھتا ہوں (از سورۂ حجرات تا سورۂ بروج)۔ اس کی بات سن کر حضرت عبد الله بن مسعود رضی الله عنہ نے فرمایا: (شاید تم) شعر پڑھنے کی طرح تیزی سے قرآن مجید پڑھتے ہوگے (یعنی تم تجوید کی رعایت کے بغیر قرآن مجید پڑھتے ہوگے)۔ بے شک بعض لوگ قرآن مجید کی تلاوت کریں گے؛ لیکن وہ ان کے حلق سے آگے نہیں بڑھےگی (یعنی غلط پڑھنے کی وجہ سے ان کی تلاوت الله کے یہاں مقبول نہیں ہوگی یا یہ کہ ان کے دلوں پر قرآن مجید کی تلاوت کا کوئی اثر نہیں آئےگا)۔
(۱۲) جب بھی قرآن مجید کا نام لیں، تو ادب واحترام کے ساتھ لیں۔ مثلا آپ قرآن مجید کے لئے یہ الفاظ استعمل کریں: قرآن مجید، قرآن شریف، قرآن پاک اور قرآن کریم وغیرہ۔ صرف ”قرآن“ نہ کہیں۔
(۱۳) قرآن مجید کو خوش الحانی کے ساتھ پڑھیں، مگر مغنیوں اور گانے والوں کی آواز اور طرز کی نقل نہ کریں۔
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قرآن مجید (کی تلاوت) کو اپنی آوازوں سے مزیّن کرو (قرآن مجید کو خوش الحانی سے پڑھو)۔
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قرآن مجید کو عربوں کی آواز اور طرز میں پڑھو اور اہل کتاب اور فاسق لوگوں کی آواز اور طرز سے بچو۔ عنقریب میرے بعد کچھ ایسے لوگ آئیں گے جو گانے والوں، راہبوں اور نوحہ کرنے والوں کی طرح قرآن مجید پڑھیں گے؛ لیکن قرآن مجید ان کے حلق سے آگے نہیں بڑھےگی (یعنی غلط پڑھنے کی وجہ سے ان کی تلاوت الله کے یہاں مقبول نہیں ہوگی یا یہ کہ ان کے دلوں پر قرآن مجید کی تلاوت کا کوئی اثر نہیں آئےگا) نیز ان کے دل اور ان کی قراءت سن کر خوش ہونے والوں کے دل فتنے میں (دنیا کی محبّت وغیرہ میں) مبتلا ہوں گے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص قرآن مجید کو خوش الحانی سے نہ پڑھے، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
(۱۴) جب آپ قرآن مجید کی تلاوت میں مشغول ہوں، تو اپنی پوری توجہ قرآن مجید کی طرف مبذول رکھیں۔ قرآن مجید کی تلاوت کے دوران دنیوی بات چیت نہ کریں، خاص طور پر اگر قرآن مجید کھلا ہو، تو ہر گز بات چیت نہ کریں (کیونکہ یہ قرآن مجید کے ساتھ بے ادبی ہے)۔ اگر بات چیت کی ضرورت پیش آئے، تو جو آیت آپ پڑھ رہے ہیں اس کو مکمل کریں پھر پورے ادب واحترام کے ساتھ قرآن مجید بند کریں پھر بات کریں۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں منقول ہے کہ جب وہ قرآن مجید کی تلاوت فرماتے، تو وہ کسی سے گفتگو نہ کرتے؛ یہاں تک کہ وہ قرآن مجید کی تلاوت سے فارغ ہو جائے۔
(۱۵) جب آپ قرآن مجید کے صفحات پلٹتے، تو صفحات پلٹنے کے لئے انگلی پر لعاب نہ لگائیں؛ کیونکہ یہ قرآن مجید کے ادب کے خلاف ہے۔
(۱۶) قرآن مجید کے ختم کے وقت دعا کریں؛ اس لئے کہ اس وقت دعا قبول ہوتی ہے۔
حضرت ثابت رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ جب قرآن مجید کا ختم کرتے تھے، تو وہ اپنے گھر والوں اور بچّوں کو جمع کرتے تھے اور ان کے لئے دعا کرتے تھے۔
حضرت ابراھیم تیمی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جو شخص قرآن مجید کا ختم کرے اس کی دعا قبول کی جاتی ہے (لہذا اسے چاہیئے کہ وہ قرآن مجید کے ختم کے وقت دعا کرے)۔ حضرت ابراھیم تیمی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جب قرآن مجید کا ختم فرماتے تھے، تو وہ اپنے گھر والوں کو اکٹھا کرتے تھے اور وہ دعا کرتے تھے اور ان کے گھر والے ان کی دعا پر آمین کہتے تھے۔
حضرت حمید رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جو شخص قرآن مجید پڑھے (یعنی وہ قرآن مجید کا ختم کرے) اور اس کے بعد دعا کرے، اس کی دعا پر چار ہزار فرشتے آمین کہتے ہیں۔
(۱۷) حالت جنابت اور حالت حیض میں قرآن مجید کی تلاوت کرنا جائز نہیں ہے۔ البتہ حالت جنابت اور حالت حیض میں ان آیتوں کو پڑھنا جائز ہے جو دعاؤوں پر مشتمل ہیں۔ اسی طرح ان آیتوں کی تلاوت کرنا بھی جائز ہے جو شیاطین وجنّات وغیرہ سے حفاظت کے طور پر پڑھی جاتی ہیں۔
یہ بات ذہن میں رکھیں کہ جب وہ حالت جنابت اور حالت حیض میں ان آیتوں کو پڑھیں گے، تو اس وقت صرف دعا اور استعاذہ (اللہ تعالی سے طلب حفاظت) کی نیّت سے پڑھیں، تلاوت کی نیّت سے نہ پڑھیں؛ کیونکہ حالت جنابت اور حالت حیض میں قرآن مجید کو تلاوت کی نیّت سے پڑھنا جائز نہیں ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو انسان حالت حیض اور حالت جنابت میں ہو، وہ قرآن مجید کے کسی بھی حصّے کی تلاوت نہ کرے۔
(۱۸) بیت الخلاء میں قرآن مجید کی کسی آیت کی تلاوت کرنا جائز نہیں ہے، اسی طرح بیت الخلاء میں اللہ تعالیٰ کا نام لینا جائز نہیں ہے۔ نیز اگر انگوٹھی یا چین پر قرآن مجید کی کوئی آیت لکھی ہوئی ہو یا اس پر اللہ تعالیٰ کا نام لکھا ہوا ہو، تو اس کو لیکر بیت الخلاء میں جانا جائز نہیں ہے؛ بلکہ اس کو بیت الخلاء میں داخل ہونے سے پہلے اتار دینا ضروری ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت الخلاء میں داخل ہونے کا ارادہ فرماتے، تو داخل ہونے سے پہلے آپ اپنی انگوٹھی کو نکال دیتے تھے؛ (کیونکہ اس پر اللہ تعالیٰ کا نام لکھا ہوا تھا)۔
(۱۹) اگر آپ کسی ایسے کمرے میں ہوں جہاں قرآن مجید رکھا ہوا ہو اور آپ اپنا کپڑا بدلنا چاہیں، تو کپڑا اتارنے سے پہلے آپ قرآن مجید کو ادب کے ساتھ الماری وغیرہ میں رکھ دیں، اس کے بعد آپ کپڑا اتاریں۔ قرآن مجید کے سامنے کپڑا نہ اتاریں؛ کیونکہ قرآن مجید کے سامنے کپڑا اتارنا قرآن مجید کی حرمت وعظمت کے خلاف ہے۔
(۲۰) اگر آپ کسی آیت سجدہ کی تلاوت کریں یا کسی سے آیت سجدہ کی تلاوت سنیں، تو آپ پر سجدۂ تلاوت کرنا واجب ہے۔
سجدۂ تلاوت کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ تکبیر کہیں اور پھر آپ سجدہ میں جائیں پھر آپ دوبارہ تکبیر کہیں اور سجدہ سے اٹھ جائیں۔
مستحب یہ ہے کہ آپ کھڑے ہو جائیں پھر تکبیر کہہ کر سجدہ میں جائیں؛ لیکن اگر آپ بیٹھ جائیں پھر تکبیر کہہ کر سجدہ میں جائیں، تو یہ بھی درست ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب ابن آدم کسی آیت سجدہ کی تلاوت کرتا ہے اور اس کے بعد وہ سجدہ کرتا ہے، تو شیطان روتا ہے اور وہ دور ہو جاتا ہے اور کہتا ہے: ہائے میری ہلاکت ! ابن آدم کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا، تو اس نے سجدہ کیا پس اس کے لئے جنّت ہے (یعنی اس کو جنّت ملےگی) اور مجھے سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا؛ لیکن میں نے انکار کر دیا پس میرے لئے جہنم کی آگ ہے (یعنی مجھے جہنم میں ڈالا جائےگا)۔
(۲۱) جب آپ قرآن مجید کا ختم کریں اور سورۂ ناس تک پہنچ جائیں، تو مستحب یہ ہے کہ آپ دوبارہ قرآن مجید کی تلاوت شروع کر دیں، اس طرح سے کہ آپ سورۂ فاتحہ اور سورۂ بقرہ کی ابتدائی آیتیں (المفلحون تک) پڑھیں۔
(۲۲) قرآن مجید کے ختم پر مندرجہ ذیل دعا پڑھیں:
اَللّٰهُمَّ ارْحَمْنِيْ بِالْقُرْآنْ وَاجْعَلْهُ لِيْ إِمَاماً وَّهُدًى وَّرَحْمَةً اَللّٰهُمَّ ذَكِّرْنِيْ مِنْهُ مَا نَسِيْتُ وَعَلِّمْنِيْ مِنْهُ مَا جَهِلْتُ وَارْزُقْنِيْ تِلَاوَتَهُ آنَاءَ اللَّيْلِ وَأَطْرَافَ النَّهَارِ وَاجْعَلْهُ لِيْ حُجَّةً يَا رَبَّ الْعَالَمِيْنَ
اے اللہ ! مجھ پر قرآن مجید کے ذریعہ اپنی خصوصی رحمت نازل فرما اور اس کو میرے لئے رہنما، ہدایت اور رحمت بنا۔ اے اللہ ! مجھے یاد دلا دے قرآن مجید کے اس حصّہ کو جو میں بھول چکا ہوں اور مجھے سکھا دے قرآن مجید کے اس حصّہ کو جو میں نہیں جانتا ہوں اور رات ودن کے مختلف اوقات میں مجھے قرآن مجید کی تلاوت کرنے کی توفیق عطا فرما اور اس کو (قیامت کے دن) میرے لئے حجت ودلیل بنا دے اے تمام جہانوں کے پروردگار۔
(۲۳) اگر آپ نے قرآن مجید کا کچھ حصّہ یاد کر لیا ہے، تو ہمیشہ اس کا دور کریں؛ تاکہ آپ اس کو نہ بھولیں، اس لئے کہ حدیث شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کی تلاوت میں غفلت برتنے اور اس کو یاد کرنے کے بعد بھول جانے کے بارے میں سخت وعید سنائی ہے۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قرآن مجید کی حفاظت کرو۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے، یہ (قرآن مجید) لوگوں کے سینوں سے نکل جانے میں اس اونٹ سے زیادہ تیز ہے جو اپنی رسّی میں بندھا ہوا ہو۔ (صحیح البخاری)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میرے سامنے میری امّت کے (نیک اعمال کے) اجرو ثواب پیش کئے گئے، یہاں تک کہ وہ تنکا بھی جو آدمی مسجد سے نکالتا ہے (اس کا ثواب بھی مجھے دکھایا گیا) اور میرے سامنے امّت کے گناہ پیش کئے گئے، تو میں نے اس شخص کے گناہ سے بڑا کوئی گناہ نہیں دیکھا جس کو قرآن مجید کی کوئی سورت یا آیت یاد ہوئی اور پھر وہ اس کو بھول گیا۔ (ابو داؤد شریف)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ صاحب قرآن (حافظ قرآن) کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے اپنے اونٹ کو باندھ رکھا ہو۔ اگر وہ اس کی نگرانی کرتا رہےگا، تو وہ اس کے پاس رہےگا اور اگر اسے چھوڑ دےگا تو وہ بھاگ جائےگا۔ (صحیح البخاری)
حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص بھی قرآن مجید پڑھنا سیکھ لیتا ہے اور پھر وہ اس کو بھول گیا، تو وہ اللہ تعالیٰ سے قیامت کے دن اس حال میں ملاقات کرےگا کہ وہ مجذوم (کوڑھی) ہوگا۔ (ابو داؤد)
نوٹ:
(۱) اس حدیث شریف میں قرآن مجید کی کسی آیت یا سورت کا بھول جانا بد ترین گناہ بتایا گیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید یا قرآن مجید کا کوئی حصہ یاد ہونا، اللہ تعالیٰ کی ایک بڑی نعمت ہے، پھر قرآن مجید کو بھول جانا گویا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی اس عظیم نعمت کی بڑی ناقدری ہے۔
(۲) بعض علمائے کرام نے بتایا ہے کہ یہ وعید جو حدیث شریف میں وارد ہوئی ہے، یہ اس شخص کے بارے میں ہے جو قرآن مجید کی تلاوت میں غفلت برتنے کی وجہ سے جو کچھ یاد تھا، وہ اس کو بھول جاتا ہے۔
(۳) دوسرے علمائے کرام کی رائے یہ ہے کہ یہ وعید اس شخص کے بارے میں ہے جو قرآن مجید کی تلاوت میں اس قدر غفلت برتتا ہے کہ جو کچھ اس نے یاد کیا تھا، وہ صرف اس کو نہ بھول جائے؛ بلکہ وہ قرآن مجید پڑھنے پر بھی قادر نہ رہے، ایسے شخص کے لئے یہ وعید ہے۔