سوال:- کیا زکوٰۃ کی رقم سے کسی غریب مسلمان کی بجلی اور پانی کا بل ادا کرنے سے زکوٰۃ ادا ہو جائےگی؟
الجواب حامدًا و مصلیًا
زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے ضروری ہے کہ “تملیک” کی شرط پائی جائے۔ اگر تملیک کی شرط پائی جائے، تو زکوٰۃ ادا ہوگی ورنہ نہیں۔
“تملیک” کی شرط کا مطلب یہ ہے کہ کسی غریب مسلمان کو زکوٰۃ کی رقم دے کر اس کو اس کا مالک بنا دیا جائے۔
لہذا اگر کوئی شخص کسی غریب مسلمان کی بجلی یا پانی کا بل اس کی اجازت کے بغیر ادا کرے، تو زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی؛ کیونکہ تملیک کی یہ شرط نہیں پائی گئی۔
تملیک کی شرط اس وجہ سے نہیں پائی گئی ہے؛ کیونکہ اس آدمی نے از خود اپنی طرف سے اس غریب مسلمان کا بل ادا کر دیا، غریب مسلمان نے اس کو بجلی یا پانی کا بل ادا کرنے کے لیے اپنا وکیل نہیں بنایا۔
البتہ اگر کوئی آدمی کسی غریب مسلمان کی بجلی یا پانی کا بل ادا کرنے سے پہلے غریب مسلمان سے اجازت لے لے اور غریب مسلمان اس کو اجازت دے دے، تو اس صورت ميں بجلی یا پانی کا بل ادا کرنے سے اس کی زکوٰۃ ادا ہو جائےگی۔
کیوںکہ اس صورت میں زکوٰۃ ادا کرنے والا غریب مسلمان کا وکیل بن کر اس کی طرف سے بجلی یا پانی کا بل ادا کر رہا ہے۔
فقط واللہ تعالی اعلم
ويشترط أن يكون الصرف (تمليكا) لا إباحة كما مر (لا) يصرف (إلى بناء) نحو (مسجد و) لا إلى (كفن ميت وقضاء دينه) أما دين الحي الفقير فيجوز لو بأمره (الدر المختار ۲/۳٤٤)
وقيد بالتمليك احترازا عن الإباحة ولهذا ذكر الولوالجي وغيره أنه لو عال يتيما فجعل يكسوه ويطعمه وجعله من زكاة ماله فالكسوة تجوز لوجود ركنه وهو التمليك وأما الإطعام إن دفع الطعام إليه بيده يجوز أيضا لهذه العلة وإن كان لم يدفع إليه ويأكل اليتيم لم يجز لانعدام الركن وهو التمليك (البحر الرائق ۲/۲۱۷)
أما تفسيرها فهي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله تعالى هذا في الشرع كذا في التبيين (الفتاوى الهندية ۱/۱۷٠)
(قوله وقضاء دينه) أي الميت لعدم التمليك بدليل أنه لو قضى دين غيره ثم تصدق الدائن والمديون على عدمه رجع المتبرع على الدائن لا على المديون إذا كان بغير أمره أما إذا كان بأمره فهو تمليك منه فلا رجوع على الدائن وإنما يرجع على المديون (حاشية الطحطاوي على الدر المختار ۱/٤۲۵)
(ولا يقضى بها دين ميت لأن قضاء دين الغير لا يقتضي التمليك منه) أي من الغير بدليل أن الدائن والمديون إذا تصرفا على أن لا دين بينهما وللمؤدي أن يسترد المقبوض من القابض فلم يصر هو ملكا للقابض وإنما قيده بقوله دين ميت فإنه لو قضى بها دين حي بأمره يجوز وتقع الزكاة كأنه تصدق على المديون والقابض وكيل في قبض الصدقة كذا في شرح الطحاوي رحمه الله (البناية ۳/٤٦۳)
دار الافتاء، مدرسہ تعلیم الدین
اسپنگو بیچ، ڈربن، جنوبی افریقہ
Source: http://muftionline.co.za/node/48