بسم الله الرحمن الرحيم
پڑوسی کے حقوق
ہر انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان حقوق سے واقف ہو جو اس پر لازم ہیں اور ان کو ادا کرے؛ تاکہ دنیا کا نظام صحیح طریقے سے جاری وساری رہے، اس لئے حقوق نہ ادا کرنے کی وجہ سے دنیا میں فتنہ وفساد برپا ہوتا ہے، ہنگامی پھیلتی ہے، چوری ڈکیتی کے واقعات کثرت سے پیش آتے ہیں، لوگوں پر ظلم وستم ہوتا ہے اور عورتوں، بچوں، اور کمزوروں کے حقوق چھین لئے جاتے ہیں؛ کیونکہ وہ اپنا دفاع نہیں کر سکتے ہیں اور ان کے اندر اپنے حقوق کو حاصل کرنے کی طاقت نہیں ہوتی ہے۔ اسی بنا پر شریعت نے لوگوں کے حقوق کو بیان کیا ہے اور ان کی ادائیگی کا طریقہ سکھایا ہے۔
چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَبِالْوٰلِدَيْنِ إِحْسٰنًا وَبِذِى الْقُرْبٰى وَالْيَتٰمَىٰ وَالْمَسٰكِينِ وَالْجَارِ ذِى الْقُرْبَىٰ وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَٰنُكُمْ
اور ماں باپ کے ساتھ اچھا معاملہ کرو اور دوسرے رشتہ داروں، یتیموں، فقیروں، پاس والے پڑوسی، دور والے پڑوسی، پاس بیٹھنے والے اور مسافر کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو اور (ان کے ساتھ بھی اچھا معاملہ کرو) جو تمہارے مالکانہ قبضہ میں ہیں (غلام اور باندیوں کے ساتھ)۔
پڑوسی کے حقوق ادا کرنے کی تاکید
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے پڑوسی کا حق بیان کیا ہے اور اس کو ادا کرنے کی ترغیب دی ہے؛ نیز بہت سی احادیث مبارکہ میں بھی پڑوسیوں کے حقوق کو ادا کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ ایک حدیث میں وارد ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کامل مؤمن وہ نہیں ہے جو شکم سیر ہو کر کھائے (جبکہ وہ جانتا ہو کہ) اس کے بازو میں اس کا پڑوسی بھوکا ہے۔ (شعب الایمان)
پڑوسی کے حقوق
ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ حضرت معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! میرے ذمہ میرے پڑوسی کا کیا حق ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر وہ بیمار ہو جائے، تو اس کی عیادت کرو۔ اگر اس کی وفات ہو جائے، تو اس کے جنازہ میں شرکت کرو۔ اگر وہ قرض مانگے، تو اس کو قرض دو۔ اگر وہ تنگ دستی میں مبتلا ہو جائے، تو اس کی تنگ دستی پر پردہ پوشی کرو۔ اگر اس کو کوئی اچھی چیز ملے، تو اس کو مبارک باد دو، اگر اس کو کوئی مصیبت اور تکلیف پہنچے، تو اس کو تسلّی دو۔ اپنی عمارت اس کی عمارت سے اونچی نہ بناؤ کہ اس کے گھر میں ہوا نہ جائے اور اس کو اپنی ہانڈی کی خوشبو سے تکلیف نہ پہونچاؤ (کھانے کی خوشبو سے تکلیف نہ دو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کھانے اس طرح نہ پکاؤ کہ اس کی خوشبو غریب پڑوسی کو پہنچے اور وہ تکلیف محسوس کرے؛ کیونکہ اس قسم کا کھانا اس کی استطاعت سے باہر ہے جیسے گوشت بھوننا وغیرہ) مگر یہ کہ تم اس میں سے اپنے پڑوسی کے لئے تھوڑا کھانا نکالو (اور اس کے گھر بھیج دو)۔ (مجمع الزوائد)
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنا
اسلام میں پڑوسیوں کے حقوق کی بہت زیادہ اہمیّت ہے اور ان کی ادائیگی پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ اسی وجہ سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اپنے پڑوسیوں کے حقوق کا بہت خیال رکھتے تھے اور ان کی ادائیگی میں ذرّہ برابر کوتاہی نہیں کرتے تھے؛ کیونکہ ان کو پتہ تھا کہ دین میں پڑوسیوں کے متعلق بہت زیادہ تاکید وارد ہوئی ہے۔
حضرت مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک بار حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے گھر میں ایک بکری ذبح کی گئی۔ جب آپ تشریف لائے، تو گھر والوں سے پوچھا: کیا تم نے ہمارے یہودی پڑوسی کے گھر کچھ بھیجا؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام مجھے پڑوسی کے (حقوق کے) بارے میں مسلسل وصیّت کرتے رہے، یہاں تک کہ مجھے یہ خیال ہونے لگا کہ اللہ تعالیٰ اس کو بھی (مرنے والےکا) وارث قرار دیں گے۔ (ترمذی شریف)
حسن بصری رحمہ اللہ کا واقعہ
حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کا ایک واقعہ منقول ہے کہ ان کا ایک نصرانی ہمسایہ تھا۔ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ گھر کے نیچے کے حصہ میں رہتے تھے اور نصرانی اوپر کے حصہ میں رہتا تھا۔ نصرانی کا بیت الخلا اوپر تھا اور وہاں سے حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کے گھر میں پیشاب کے قطرے گرتے تھے۔ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ نے اس کے نیچے ایک برتن رکھوا دیا تھا۔ جب وہ بھر جاتا تھا، تو اس کو پھینک دیتے تھے۔ اس کے باوجود حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کبھی بھی شکایت نہیں کی اور نصرانی کو کچھ نہیں کہا۔ یہ سلسلہ بیس سالوں تک چلتا رہا۔ ایک دن حضرت حسن بصری رحمہ اللہ بیمار ہوئے، تو وہ نصرانی عیادت کے لئے حاضرِ خدمت ہوا۔ جب اس نے گھر کی حالت دیکھی، تو پوچھا: اے ابو سعید! آپ یہ تکلیف کب سے برداشت کر رہے ہیں؟ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ نے جواب دیا: بیس سال سے۔ یہ سن کر اس نے فوراً اپنی زنار توڑی اور اسلام قبول کر لیا۔ (الامتاع والمؤانسۃ)
پڑوسی کے حقوق ادا نہ کرنے پر وعیدیں
خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح پڑوسیوں کے حقوق کا خیال رکھنے کی بڑی تاکید کی گئی ہے اسی طرح ان لوگوں کے بارے میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں جو اپنے پڑوسیوں کو تکلیف پہونچاتے ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، وہ اپنے پڑوسی کو نہ ستائے۔ (صحیح البخاری)
ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے (تین مرتبہ) فرمایا ”خدا کی قسم مؤمین نہیں ہے، خدا کی قسم مؤمین نہیں ہے، خدا کی قسم مؤمین نہیں ہے، کسی نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کون شخص؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کا پڑوسی اس کی مصیبتوں (اور بدیوں) سے مأمون نہ ہو۔“ (مشکوٰۃ)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! فلانی عورت کثرت سے نماز پڑھتی ہے، روزہ رکھتی ہے اور صدقہ کرتی ہے؛لیکن اپنے پڑوسی کو اپنی زبان سے تکلیف پہونچاتی ہے (ایسی عورت کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: وہ جہنم میں جائےگی۔ اس شخص نے کہا: اور فلاں عورت تھوڑی نمازیں پڑھتی ہے، کچھ روزے رکھتی ہے (فرائض پر اکتفا کرتی ہے) اور پنیر کے کچھ ٹکڑے صدقہ کرتی ہے اور اپنے پڑوسی کو اپنی زبان سے تکلیف نہیں پہونچاتی ہے (ایسی عورت کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے) آپ نے فرمایا ”وہ جنّت میں جائےگی۔“ (مجمع الزوائد)
مذکورہ بالا احادیث مبارکہ سے اچھی طرح واضح ہو گیا کہ اسلام میں پڑوسیوں کے حقوق کو بہت زیادہ اہمیّت دی گئی ہیں؛ لہذا ہمیں چاہیئے کہ ان کے تمام حقوق کو ادا کرنے کی بھرپور کوشش کریں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں حقوق العباد کو ادا کرنے کی توفیق عطا کرے اور دین ودنیا کی بھلائیوں کی طرف ہماری رہنمائی فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
Source: http://ihyaauddeen.co.za/?p=17478