عورتوں کی نماز
دینِ اسلام نے عورتوں کو ایسی عزت بخشی جو کسی اور مذہب میں نہیں ہے۔ اگر عورتوں سے متعلق اسلام کی امتیازی شان اور عزت دیکھی جائے، تو یہ بات بخوبی واضح ہوتی ہے کہ اس عزت اور شرف کا دار ومدار ”حیا“ اور ”شرم“ پر ہے۔
اسلام نے عورتوں کو حکم دیا ہے کہ اپنی زندگی کے تمام شعبوں اور تمام امور میں دامنِ حیا کو لازم پکڑ لے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے عورتوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے گھروں میں رہیں اور اپنے آپ کو اجنبی مردوں کی نگاہوں سے محفوظ رکھیں اور گھر سے ضرورت کے بغیر نہ نکلیں۔
اسلام عورتوں کو ہر چیز میں ”حیا“ کی تعلیم دیتا ہے۔ نماز کے شروع سے لے کر نماز کے اخیر تک، قیام، رکوع، سجدہ وغیرہ کس کیفیت سے ادا کریں اور کون سی قسم کے کپڑے پہنیں سب ”حیا“ کے اوپر دلالت کرتا ہے۔
چناں چہ دیگر عبادات سے قطع نظر، اگر ہم صرف عورتوں کے طریقۂ نماز میں غور کریں، تو اس سے روزِ روشن کی طرح شرم وحیا اور پردے کی اس اعلیٰ درجہ کی وضاحت ہوتی ہے جو عورتوں سے مطلوب ہے۔ لہذا عورتوں کو نماز کی ادائیگی کے وقت جس درجے کی حیا اور پردے کو اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اسی درجہ کی حیا اور پردے کو زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
پردہ پوشی
اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ عورتوں کی جسمانی ہیئت مردوں سے مختلف ہے؛ اس لئے شریعت نے اس بات کا لحاظ کر کے بہت سے دینی امور میں مردوں اور عورتوں کے لیے الگ الگ احکام مقرر کئے ہیں۔
عورتوں کے احکام کے مختلف ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عورتوں کو ہر چیز میں ایسا طریقہ اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے، جس میں ان کے لیے زیادہ سے زیادہ پردہ ہو۔ یہاں تک کہ اس کی رعایت نماز کی ہیئتوں میں بھی کی گئی ہے۔ چناں چہ ایک عورت کے لیے حکم یہ ہے کہ نماز کے ارکان کی ادائیگی ایسے طریقے سے کرے، جس میں اس کے لیے زیادہ سے زیادہ پردہ پوشی ہو اور اس کا جسم کم سے کم ظاہر ہو۔
امام بیہقی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وجماع ما يفارق المرأة فيه الرجل من أحكام الصلاة راجع إلى الستر وهو أنها مأمورة بكل ما كان أستر لها (السنن الكبرى للبيهقي، الرقم: ۳۱۹٦)
عورت کی نماز کے احکام مردوں کی نماز کے احکام سے جدا ہونے کا دارومدار ستر(پردہ پوشی) پر ہے۔ عورت کو ایسا طریقہ اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے جس میں اس کے لیے زیادہ سے زیادہ پردہ ہو۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں عورتوں کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ دورانِ نماز اپنے بدن کے اعضاء جتنا قریب رکھ سکتیں، تو ان کو چاہیئے کہ قریب کریں۔“ [۱]
مذاہبِ اربعہ
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعینِ عظام رحمہم اللہ کے زمانے سے لے کر بعد کی صدیوں تک عورتوں کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ مردوں کی طرح نماز ادا نہ کریں؛ بلکہ کچھ ارکان میں ان کی نماز مردوں سے مختلف ہونی چاہیے، چناں چہ چاروں مذاہب (حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی) کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کچھ ارکان میں عورتوں کی نماز مردوں سے مختلف ہے۔ [۲]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دلی تمنّا کہ عورتیں اپنے گھروں میں نماز ادا کریں
ایک طرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دلی تمنّا یہ تھی کہ ان کی امّت کے مرد مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کریں، تو دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دلی آرزو یہ تھی کہ ان کی امّت کی عورتیں گھروں کے اندر نماز ادا کریں۔
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو اس بات کی ترغیب دی ہے کہ وہ اپنے گھروں کے اندر نماز ادا کریں اور وہ اپنے آپ کو غیر محرم مردوں کی نگاہوں سے پوشیدہ رکھیں، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ”عورت کا اپنے کمرہ کے اندر نماز پڑھنا اپنے گھر کے صحن میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور عورت کا اپنے کمرہ کے اندرون حصہ میں نماز پڑھنا، کمرہ کے دوسرے حصوں میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔“ [۳]
ایک مرتبہ حضرت ابو حمید الساعدی رضی اللہ عنہ کی اہلیہ حضرت امِ حمید رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا اے اللہ کے رسول! مجھے آپ کے پیچھے نماز پڑھنے کی تمنا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ تمہیں میری اقتدا میں نماز ادا کرنے کی تمنا ہے؛ لیکن تمہارا اپنے کمرے کے اندرون حصہ میں نماز پڑھنا کمرے میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور کمرے میں نماز پڑھنا اپنے گھر کی دوسری جگہوں میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور اپنے گھر کی دوسری جگہوں میں نماز پڑھنا محلّہ کی مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور محلہ کی مسجد میں نماز پڑھنا میری مسجد (مسجدِ نبوی) میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے (راوی کہتے ہیں کہ) حضرت اُمّ حمید رضی اللہ عنہا نے (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے) اپنے کمرے کے اندرونی اور تاریک ترین حصّے میں نماز کے لیے چھوٹی سی جگہ تیار کروائیں اور (پوری زندگی) اسی جگہ نماز ادا کرتی رہیں، یہاں تک مولائے حقیقی سے جا ملیں۔ [٤]
حضرت امام شافعی رحمہ اللہ کا ارشاد
حضرت امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ”اختلاف الحدیث“ میں لکھا ہے:
ہمیں معلوم نہیں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات میں سے کوئی زوجہ مسجد میں نماز جمعہ یا کوئی اور نماز ادا کرنے کے لیے گھر سے باہر نکلتی تھی، جب کہ ازواجِ مطہرات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خصوصی تعلق کی بنا پر دوسری عورتوں سے اس بات کی زیادہ حق دار تھیں کہ وہ فرض نمازیں مسجد میں ادا کرتیں؛ مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرانے میں بہت سی ایسی عورتیں تھیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت قریب تھیں۔ جیسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات، آپ کی صاحبزادیاں، آپ کی باندیاں اور آپ کے گھرانے کی باندیاں، مگر ان میں سے کسی ایک عورت کے بارے میں بھی ہمیں معلوم نہیں ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نمازِ جمعہ ادا کرنے کے لیے گھر سے باہر نکلتی تھی، باوجودیکہ نمازِ جمعہ، دیگر نمازوں سے بڑھ کر زیادہ ضروری اور لازم ہے مردوں پر، اسی طرح ہمیں ان میں سے کسی عورت کے متعلق یہ نہیں معلوم ہے کہ وہ دن میں یا رات میں نماز باجماعت مسجد میں شامل ہونے کے لیے گھر سے نکلتی تھی اور اسی طرح وہ مسجد قبا بھی نہیں جاتی تھی؛ جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجدِ قبا تشریف لے جاتے تھے، کبھی آپ پیدل جاتے اور کبھی آپ سواری سے تشریف لے جاتے تھے اور اسی طرح وہ دوسری مسجدوں میں نہیں جاتی تھی۔
مجھے اس میں ذرّہ برابر شک نہیں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خصوصی تعلق کی وجہ سے ان عورتوں میں اجرو ثواب کے حصول کا بے پناہ جذبہ اور شوق و ولولہ تھا اور انہیں ان طریقوں کے بارے میں زیادہ علم تھا، جہاں سے انہیں زیادہ ثواب مل سکتا تھا، اس کے باوجود وہ نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد نہیں جاتی تھیں۔
سلف صالحین میں سے بھی مجھے کسی کے بارے میں یہ نہیں معلوم ہے کہ انہوں نے اپنی عورتوں کو نمازِ جمعہ یا کسی بھی نماز باجماعت مسجد میں شامل ہونے کے لیے گھر سے نکلنے کا حکم دیا ہو۔ نہ تو رات میں اور نہ ہی دن میں۔ اگر انہیں عورتوں کے گھر سے نکلنے اور اجتماعی نمازوں میں شامل ہونے کے بارے میں کوئی فضیلت معلوم ہوتی، تو وہ ضرور اپنی عورتوں کو گھروں سے نکلنے کا حکم دیتے اور وہ ان کو ضرور اجازت دیتے۔ ہاں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ منقول ہے کہ ”عورت کا اپنے کمرہ کے اندر نماز پڑھنا گھر کے بڑے کمرہ میں نماز پڑھنے سے افضل ہے اور گھر کے بڑے کمرہ میں نماز پڑھنا مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے۔“ [۵]
[۱] عن نافع عن ابن عمر رضي الله عنهما أنه سئل كيف كن النساء يصلين على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم كن يتربعن ثم أمرن أن يحتفزن (مسند الإمام الأعظم للحصكفي على ترتيب السندي صـ ۷۳)
(عن نافع عن ابن عمر أنه سئل كيف كن النساء يصلين على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم) أي في زمانه صلى الله عليه وسلم (قال كن يتربعن) أي في حال قعودهن (ثم أمرن أن يحتفزن) بالحاء المهملة والفاء والزاء أي يضممن أعضاءهن بأن يتوركن في جلوسهن (شرح مسند الإمام أبي حنيفة للقاري صـ ۱۹۱)
صححه العلامة ظفر أحمد العثماني في إعلاء السنن (۳/۲۷)
[۲] المذهب الحنفي: ويجافي بطنه عن فخذيه كذا في الهداية والمرأة لا تجافي في ركوعها وسجودها وتقعد على رجليها وفي السجدة تفترش بطنها على فخذيها كذا في الخلاصة (الفتاوى الهندية ۱/۷۵)
المذهب المالكي: المرأة يندب كونها منضمة في ركوعها وسجودها (حاشية الدسوقي ۱/۲٤۹)
المذهب الشافعي: ولا فرق بين الرجال والنساء في عمل الصلاة إلا أن المرأة يستحب لها أن تضم بعضها إلى بعض وأن تلصق بطنها بفخذيها في السجود كأستر ما يكون وأحب ذلك لها في الركوع وفي جميع الصلاة وأن تكثف جلبابها وتجافيه راكعة وساجدة لئلا تصفها ثيابها وأن تخفض صوتها وان نابها شئ في صلاتها صفقت (المجموع شرح المهذب ۳/۳٤٦)
المذهب الحنبلي: تجمع نفسها في الركوع والسجود وسائر صلاتها (المغني لابن قدامة ۱/۳۳۹)
[۳] عن عبد الله عن النبي صلى الله عليه وسلم قال صلاة المرأة في بيتها أفضل من صلاتها في حجرتها وصلاتها في مخدعها أفضل من صلاتها في بيتها (سنن أبي داود، الرقم: ۵۷٠)
[٤] عن عبد الله بن سويد الأنصاري عن عمته أم حميد امرأة أبي حميد الساعدي أنها جاءت النبي صلى الله عليه وسلم فقالت يا رسول الله إني أحب الصلاة معك قال قد علمت أنك تحبين الصلاة معي وصلاتك في بيتك خير من صلاتك في حجرتك وصلاتك في حجرتك خير من صلاتك في دارك وصلاتك في دارك خير من صلاتك في مسجد قومك وصلاتك في مسجد قومك خير من صلاتك في مسجدي قال فأمرت فبني لها مسجد في أقصى شيء من بيتها وأظلمه وكانت تصلي فيه حتى لقيت الله جل وعلا (صحيح ابن حبان، الرقم: ۲۲۱۷)
[۵] ولم نعلم من أمهات المؤمنين امرأة خرجت إلى جمعة ولا جماعة في مسجد وأزواج رسول الله صلى الله عليه وسلم بمكانهن من رسول الله صلى الله عليه وسلم أولى بأداء الفرائض … وقد كان مع رسول الله صلى الله عليه وسلم نساء من أهل بيته وبناته وأزواجه ومولياته وخدمه وخدم أهل بيته فما علمت منهن امرأة خرجت إلى شهود جمعة والجمعة واجبة على الرجال بأكثر من وجوب الجماعة في الصلوات غيرها ولا إلى جماعة غيرها في ليل أو نهار ولا إلى مسجد قباء فقد كان النبي صلى الله عليه وسلم يأتيه راكبا وماشيا ولا إلى غيره من المساجد وما أشك أنهن كن على الخير بمكانهن من رسول الله صلى الله عليه وسلم أحرص وبه أعلم من غيرهن … وما علمت أحدا من سلف المسلمين أمر أحدا من نسائه بإتيان جمعة ولا جماعة من ليل ولا نهار ولو كان لهن في ذلك فضل أمروهن به وأذنوا لهن إليه بل قد روي والله أعلم عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال صلاة المرأة في بيتها خير من صلاتها في حجرتها وصلاتها في حجرتها خير من صلاتها في المسجد أو المساجد (اختلاف الحديث صـ ٦۲۵-٦۲٦)