عن كعب بن عجرة رضي الله عنه قال: لما نزلت: إن الله وملائكته يصلون على النبي الآية قلنا: يا رسول الله! قد علمنا السلام عليك فكيف الصلاة؟ قال: قولوا: اللهم صل على محمد وعلى آل محمد كما صليت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم إنك حميد مجيد وبارك على محمد وعلى آل محمد كما باركت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم إنك حميد مجيد (مسند ابن أبي شيبة، الرقم: ۵٠۵)
حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب مندجہ ذیل آیتِ شریفہ نازل ہوئی:
إِنَّ الله وَمَلئِٰكَتَهُ يُصَلُّوْنَ عَلٰى النِّبِيِّ يٰأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا
بے شک اللہ اور ان کے فرشتے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں (یعنی اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر رحمتیں نازل فرماتے ہیں اور فرشتے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دعا مانگتے ہیں)۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود بھیجو اور خوب سلام بھیجا کرو۔
تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہم آپ پر سلام بھیجنا تو جانتے ہیں (کیونکہ آپ نے ہم کو سکھایا کہ ہم نماز کے تشہد میں کس طرح آپ پر سلام بھیجیں)؛ لیکن ہم جاننا چاہتے ہیں کہ آپ پر درود وصلوٰہ کس طرح بھیجیں؟ (کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن مجید کی اس آیت میں حکم دیا کہ ہم آپ پر درود وصلوٰۃ بھیجیں)، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یہ پڑھا کرو:
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيْدٌ مَجِيْدٌ وَبَارِكْ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيْدٌ مَجِيْدٌ
اے اللہ! درود بھیج محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور ان کی اولاد پر، جس طرح آپ نے درود بھیجا حضرت ابراھیم علیہ السلام پر اور ان کی اولاد پر۔ بے شک آپ قابل تعریف اور بزرگ وبرتر ہیں اور برکت نازل فرما محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور ان کی اولاد پر، جیسا کہ آپ نے برکت نازل فرمائی حضرت ابراھیم علیہ السلام پر اور ان کی اولاد پر۔ بے شک آپ قابلِ تعریف اور بزرگ وبرتر ہیں۔
حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کا ذباب کے لفظ سے بال کٹوا دینا
حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میرے سر کے بال بہت بڑھے ہوئے تھے۔ میں سامنے آیا، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ”ذباب، ذباب“۔ میں یہ سمجھا کہ میرے بالوں کے بارے میں ارشاد فرمایا۔ میں واپس گیا اور ان کو کٹوا دیا۔
جب دوسرے دن میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں نے تمہیں نہیں کہا تھا (کہ آپ اپنے بال کو کٹوا دے)؛ لیکن یہ اچھا کیا۔ (سنن ابی داؤد)
نوٹ: حضرت وائل رضی اللہ عنہ کا یہ عمل دلالت کرتا ہے کہ ان کے دل میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سچی محبّت تھی۔ ان کے دل میں جوں ہی یہ خیال گزرا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لمبے بال سے خوش نہیں تھے، تو انہوں نے فوراً اپنے بال کاٹ دیئے۔
اس سے اچھی طرح اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے دل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کتنی زیادہ محبّت تھی کہ صرف آپ کی ناراضگی کے شبہ کی وجہ سے وہ بے چین ہو گئے، تو کیا اس بات کا ذرہ برابر بھی امکان ہو سکتا ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کریں یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت کے خلاف کوئی عمل کریں؟
يَا رَبِّ صَلِّ وَسَلِّم دَائِمًا أَبَدًا عَلَى حَبِيبِكَ خَيرِ الْخَلْقِ كُلِّهِمِ
Source: