نکاح کے مسائل
صحّت نکاح
(۱) نکاح کے صحیح ہونے کے لئے شرط یہ ہے کہ نکاح کے وقت کم از کم دو بالغ مسلمان مرد گواہ موجود ہوں یا ایک بالغ مسلمان مرد اور دو بالغ مسلمان عورتیں گواہ موجود ہوں، جو دولہا اور دلہن (یا ان دونوں کے وکیل) کے ایجاب وقبول کے الفاظ سنیں۔
اگر نکاح کے وقت کوئی گواہ موجود نہ ہوں یا صرف ایک گواہ موجود ہو، تو نکاح نہیں ہوگا۔
(۲) اگر دولہا اور دُلہن (یا دونوں کے وکیل) الگ الگ جگہوں پر ہوں اور ان کے لئے ایک ہی جگہ پر جمع ہونا مشکل ہو، تو دُلہن کو چاہیئے کہ وہ کسی کو اپنا وکیل بنا دے اور اس کو اپنا نکاح پڑھانے کی اجازت دے دے، جب وکیل اس کی طرف سے نکاح قبول کر لے، تو نکاح صحیح ہو جائےگا۔ [۱]
(۳) خفیہ نکاح پڑھانا سنّت کے خلاف ہے۔ اس قسم کے نکاح سے مرد وعورت کے متعلق لوگوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔
جب لوگ مرد وعورت کو ساتھ دیکھیں گے، تو وہ ان کو اجنبی سمجھ کر ان پر ناجائز تعلقات کی بدگمانی کریں گے، اس وجہ سے شریعت نے اس قسم کے خفیہ نکاح سے منع کیا ہے۔
نیز خفیہ نکاح پڑھانے سے بہت سے مسائل میں پیچیدگی پیدا ہو سکتی ہیں؛ کیونکہ لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ یہ مرد وعورت شادی شدہ ہیں۔
مندرجہ ذیل مسائل میں پیچیدگی پیدا ہو سکتی ہے:
(۱) وراثت
(۲) عدّت
(۳) بچوں کے نسب
(٤) بیویوں کے درمیان برابری کرنا (اس صورت میں جب مرد کے پاس ایک سے زائد بیوی ہوں)
ان تمام مسائل میں بہت سی الجھنیں پیدا ہو سکتی ہیں۔
(٤) اگر لڑکی بالغہ ہو، تو اس کے ولی کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس کا نکاح کرانے سے پہلے اس کی اجازت طلب کرے۔ ولی سے مراد لڑکی کا باپ ہے اگر لڑکی کا باپ نہ ہو، تو لڑکی کا ولی وہ آدمی ہے جو اس کے امور کا ذمہ دار ہے اس کے قریب محرم رشتہ داروں میں سے۔
(۵) اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ نکاح کے معاملہ میں لڑکی کو چاہیئے کہ وہ اپنے والدین سے مشورہ کرے اور نکاح کا فیصلہ والدین ہی کے ہاتھ میں چھوڑ دے۔ یہ بات شرم وحیا کے خلاف ہے کہ لڑکی خود اپنے لئے جوڑا تلاش کرے۔
عام طور پر نکاح کے معاملہ میں والدین کو بچوں سے زیادہ تجربہ ہوتا ہے اور وہ شادی بیاہ سے متعلق امور کو خوب اچھی طرح سمجھتے ہیں؛ لہذا اگر لڑکی کے والدین اس معاملہ میں فیصلہ کریں، تو اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ آئندہ لڑکی کے نکاح میں مشکلات اور دشواریاں پیدا ہوں گی۔
[۱]