باغِ محبّت(ساتویں قسط)‏

بسم الله الرحمن الرحيم

اللہ تعالیٰ کی عظیم ترین نعمت

حضرت ایوب علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر نبی تھے۔ جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے شدید امراض سے آزمائے گئے چند سال کے صبر کے بعد بالآخر اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے فضل وکرم سے شفا عطا فرمائی۔ انہیں شفا اس طرح ملی کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ اپنا پاؤں زمین پر مارو۔ انہوں نے پاؤں زمین پر مارا، تو صاف و شفاف پانی کا چشمہ جاری ہو گیا، پھر انہوں نے اس چشمہ کے پانی سے غسل فرمایا، تو اللہ تعالیٰ نے انہیں پورے طور پر صحت مند اور توانا بنا دیا۔ نیز اللہ تعالیٰ نے انہیں جوانی بھی لوٹا دی، بے پناہ حسن و جمال بھی عطا فرمایا اور انہیں ان نعمتوں سے دوگنی نعمتیں عطا کیں، جو بیماری کے عرصے میں زائل ہو گئی تھیں۔

حضرت ایوب علیہ السلام کے چشمہ کے بارے میں منقول ہے کہ اس کے پانی میں بیماریوں کے لیے شفا تھی۔ جب تک اس چشمہ میں پانی باقی رہا، لوگ اس میں غسل کرتے رہے اور بیماریوں سے شفا حاصل کرتے رہے۔ (عمدۃ القاری، ج۱۶، ص۳) اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ چشمہ انتہائی بابرکت تھا اور اس میں غسل کرنے والے بھی انتہائی سعادت مند تھے؛ لیکن وہ چشمہ تھوڑے ہی عرصے میں خشک ہو گیا۔

جہاں تک امّت محمدیہ کی بات ہے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں چشمہ عطا نہیں کیا؛ بلکہ انہیں ایک سمندر عطا فرمایا ہے وہ سمندر ایسا ہے کہ وہ موتیوں، ہیرے جواہرات اور گراں قدر لعل وگوہر سے بھرا ہوا ہے۔ انسان اس سے جتنا زیادہ سیرابی حاصل کرتا ہے، اتنا زیادہ ترقی کرتا ہے۔ اس کا پانی نہ تو کم ہوتا ہے اور نہ ہی کبھی خشک ہوگا؛ مگر ہمیشہ باقی رہےگا اور لوگ اس سے برکت، شفا اور اچھائی حاصل کرتے رہیں گے۔

یہ سمندر کیا ہے؟ قرآنِ کریم ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو لوگوں کی ہدایت کے لیے نازل کیا ہے۔ یہ روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کی سب سے عظیم نعمت ہے۔ اگر امت قرآن کو مضبوطی سے تھامے گی اور اس کے حقوق کی ادائیگی کرےگی، تو ان کے لیے یہ قرآن دنیا اور قبر میں نور ثابت ہوگا۔ نیز یہ ان کا قیامت کے دن میدانِ حشر میں بھی ساتھ دے گا اور ہر وقت ان کے ساتھ رہے گا، یہاں تک کہ وہ ان کے لیے جنّت میں داخل ہونے کا ذریعہ بنےگا۔

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب صاحبِ قرآن (قرآن پر عمل کرنے والا اور اس کے حقوق ادا کرنے والا) اس دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے اور اس کے اہلِ خانہ اس کی تجہیز و تکفین میں لگ جاتے ہیں، تو قرآنِ کریم حسین و جمیل شکل میں اس کے پاس آتا ہے اور اس کے سر کے پاس کھڑا ہو جاتا ہے اور اس کی حفاظت کرتا ہے۔ یہاں تک کہ  اس کو (میّت کو) کفن پہنا دیا جاتا ہے۔ پھر (کفن پہنانے کے بعد) وہ (قرآن) اس کے سینہ کے اوپر رہتا ہے اور جب اس کو قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے اوپر مٹی ڈال دی جاتی ہے اور اس کے احباب چلے جاتے ہیں، تو منکر اور نکیر اس کے پاس آتے ہیں اور اس کو قبر میں بیٹھاتے ہیں، تو قرآنِ کریم حاضر ہوتا ہے اور اس کے اور منکر نکیر کے درمیان حائل ہوجاتا ہے؛ تو منکر نکیر اس سے کہتے ہیں: ہٹ جاؤ؛ تاکہ ہم اس سے سوال کریں، تو قرآنِ کریم کہتا ہے: نہیں، کعبہ کے رب کی قسم! بے شک یہ میرا ساتھی اور دوست ہے اور میں اس کو کسی بھی حال میں بے یارومددگار نہیں چھوڑوں گا۔ اگر تم دونوں کو کسی چیز کا حکم دیا گیا ہے، تو اس کو کر گزرو اور میری جگہ خالی کرو؛ کیوں کہ میں اس سے جدا نہیں ہوں گا، یہاں تک کہ اس کو جنت میں داخل کردوں۔ (مجمع الزوائد، الرقم :۳۵۳۰)

ہم دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآنِ کریم کے حقوق کو ادا کرنے والے بنائیں اور روزانہ اس کی تلاوت کی توفیق بخشیں اور زندگی کے تمام شعبوں میں اس کی تعلیمات پر مضبوطی سے عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں؛ تاکہ ہم دنیا، قبر اور آخرت میں قرآنِ کریم کی حقیقی برکتوں سے مالا مال اورمستفید ہو سکیں۔ آمین یارب العالمین۔

Source: http://ihyaauddeen.co.za/?p=16539


Check Also

اتباع سنت کا اہتمام – ۱۰

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ – قسط دوم حضرت مولانا اشرف علی …