نکاح اور ولیمہ کی سنتیں اور آداب
(۱) نکاح کا اعلان کرنا چاہیئے (مثال کے طور پر مسجد میں لوگوں کے سامنے نکاح پڑھایا جائے )[۱] فقہائے کرام نے بیان کیا ہے کہ مستحب یہ ہے کہ نکاح جمعہ کے دن مسجد میں پڑھایا جائے۔ [۲]
(۲) جہاں تک ہو سکے نکاح سادگی کے ساتھ کیا جائے؛ کیوں کہ سادگی ہی سنّت کی روح ہے۔ [۳]
(۳) ولیمہ بھی سادگی کے ساتھ کیا جائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک فرمان ہے کہ ”سب سے بابرکت والا نکاح وہ ہے، جس میں کم خرچ ہو (یعنی نکاح اور ولیمہ سادہ کیا جائے اور اسراف اور فضول خرچی سے بچا جائے)۔“ [۴]
(۴) نکاح اور ولیمہ میں دکھاوا اور اظہارِ تفاخر ہرگز نہ ہو۔
(۵) ولیمہ میں بہت سے لوگوں کو دعوت دینا ضروری نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص صرف چند لوگوں کو اپنے گھر بلائے اور ولیمہ کی نیّت سے ان کو کھانا کھلا دے، تو بھی ولیمہ کی سنّت ادا ہوجائےگی۔ [۵]
(۶) ولیمہ میں غریبوں کو بھی دعوت دینی چاہیئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ”سب سے خراب کھانا (یعنی جو کھانا برکت سے خالی ہو) اس ولیمہ کا کھانا ہے، جس میں صرف مالداروں کو دعوت دی جائے اور غریبوں کو دعوت نہ دی جائے۔ [۶]
(۷) افضل اور سنّت سے زیادہ قریب یہ ہے کہ ولیمہ کی دعوت گھر پر کی جائے، ولیمہ کی دعوت ہال میں نہ کی جائے؛ کیوں کہ مشاہدہ یہ ہے کہ ہال میں بہت سے خلافِ شرع کام ہوتے ہیں۔ البتہ اگر کسی وجہ سے ہال میں ولیمہ کیا جائے، تو اس بات کا پورا خیال رکھا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام میں سے کسی بھی حکم کی خلاف ورزی نہ کی جائے، جیسے فرض نماز کو قضا کرنا، مرد و زن کا اختلاط کرنا اور پردہ کا اہتمام نہ کرنا، تصویر کھینچنا اور سودی قرض لے کر ولیمہ کرنا اور گانا بجانا اور ناچنا وغیرہ وغیرہ کرنا۔
(۸) ہدایا اور تحائف کے تبادلے میں ریا کاری اور فضول خرچی سے اجتناب کیا جائے اور کسی بھی حال میں مسنون طریقہ کو نہ چھوڑا جائے۔
(۹) کفار کے طریقوں اور رسوم کی مشابہت سے ہر حال میں احتراز کیا جائے۔ [۷]
(۱۰) بیوی کو مہر دیا جائے۔ مہر کی مقدار نکاح سے پہلے طے کر لی جائے۔ [۸]
(۱۱) لڑکی والوں کی طرف سے رخصتی کی تقریب منعقد کرنے کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں ہے۔
(۱۲) ولیمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سنّت ہے، ولیمہ کی دعوت اجتماعِ زوجین کے بعد کی جاتی ہے۔ [۹] ولیمہ کا وقت نکاح کے بعدسے تیسرے دن تک رہتا ہے۔ [۱۰]
(۱۳) ولیمہ کا پورا انتظام لڑکے والوں کی ذمہ داری ہے۔ [۱۱] آج کل بہت سی جگہوں پر ایسا ہوتا ہے کہ لڑکے اور لڑکی کے اہل خانہ مل کر ولیمہ کا خرچ برداشت کر تے ہیں۔ یہ حضورِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت کے خلاف ہے؛ لہذا اس سے اجتناب ضروری ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبدا لرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ ”اللہ تعالیٰ تمہارے نکاح کو برکت کا ذریعہ بنائے۔ ولیمہ کرو، خواہ ایک بکری ہی ذبح کرو (اور لوگوں کو کھلاؤ)۔“ [۱۲]
[۱] عن عائشة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أعلنوا هذا النكاح واجعلوه في المساجد واضربوا عليه بالدفوف (سنن الترمذي، الرقم: ۱٠۹۷، وقال: هذا حديث غريب حسن في هذا الباب)
[۲] ويستحب مباشرة عقد النكاح في المسجد لأنه عبادة وكونه في يوم الجمعة (فتح القدير ۲/۹۵)
[۳] عن أبي أمامة قال: ذكر أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما عنده الدنيا فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ألا تسمعون ألا تسمعون إن البذاذة من الإيمان إن البذاذة من الإيمان. يعني التقحل (سنن أبي داود، الرقم: ٤۱٦۱، وقال المنذري في مختصر سنن أبي داود ٦/۲۳۸: في إسناده محمد بن إسحاق)
[٤] شعب الإيمان، الرقم: ٦۱٤٦
عن عائشة رضي الله عنها أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: أعظم النساء بركة أيسرهن صداقا (المستدرك على الصحيحين للحاكم، الرقم: ۲۷۳۲، وقال: هذا حديث صحيح على شرط مسلم ولم يخرجاه، وقال العلامة الذهبي – رحمه الله -: على شرط مسلم)
[۵] قال (ووليمة العرس سنة) قديمة وفيها مثوبة عظيمة قال عليه الصلاة والسلام أولم ولو بشاة وهي إذا بنى الرجل بامرأته أن يدعو الجيران والأقرباء والأصدقاء ويذبح لهم ويصنع لهم طعاما (الاختيار ٤/۱۷٦)
[٦] شرح مشكل الاثار، الرقم : ۳٠۱٦، ورجاله رجال الصحيح إلا محمد بن النعمان السقطي، قال عنه الحافظ ابن حجر في التقريب ۱/۲۱۳: ثقة
[۷] عن ابن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من تشبه بقوم فهو منهم (سنن ابي داود، الرقم: ٤٠۳۱، وقال البوصيري في إتحاف الخيرة المهرة ۵/۲٠۳: وسكت عليه فهو عنده حديث صالح للعمل به والاحتجاج)
[۸] وَأُحِلَّ لَكُمْ مَا وَرَاءَ ذَلِكُمْ أَنْ تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُمْ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ (سورة النساء: ۲٤)
وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً (سورة النساء: ٤)
وَإِنْ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوهُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ إِلَّا أَنْ يَعْفُونَ أَوْ يَعْفُوَ الَّذِي بِيَدِهِ عُقْدَةُ النِّكَاحِ وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ إِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (سورة البقرة: ۲۳۷)
[۹] و وليمة العرس تكون بعد الدخول (حاشية الطحطاوي على الدر المختار ٤/۱۷۵)
[۱۰] ولا بأس بأن يدعو يومئذ ومن الغد وبعد الغد ثم ينقطع العرس والوليمة كذا في الظهيرية (الفتاوى الهندية ۵/۳٤۵)
عن أنس رضي الله عنه قال: تزوج النبي صلى الله عليه وسلم صفية وجعل عتقها صداقها وجعل الوليمة ثلاثة أيام وبسط نطعا جاءت به أم سليم وألقى عليه أقطا وتمرا وأطعم الناس ثلاثة أيام (مسند أبي يعلى الموصلي، الرقم: ۳۸۳٤، وسنده حسن كما في إعلاء السنن ۱۱/۱۲)
[۱۱] (ووليمة العرس سنة) قديمة وفيها مثوبة عظيمة قال عليه الصلاة والسلام: أولم ولو بشاة وهي إذا بنى الرجل بامرأته أن يدعو الجيران والأقرباء والأصدقاء ويذبح لهم ويصنع لهم طعاما (الاختيار لتعليل المختار ٤/۱۷٦)
إن الوليمة لا تكون إلا من مال الزوج (لامع الدراري على جامع البخاري ۱/۱٤۷)
[۱۲] سنن الترمذي، الرقم: ۱٠۹٤، وقال: حديث أنس حديث حسن صحيح