(۱) تقدیر کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ کا جامع اور محیط علم جو کائنات کی تمام چیزوں کے بارے میں ہے یعنی اللہ تعالیٰ کو کائنات کی تمام چیزوں کا علم پہلے ہی سے ہے، خواہ وہ چھوٹی یا بڑی ہو، خواہ وہ اچھی یا بُری ہو، خواہ وہ گذشتہ زمانہ سے یا موجودہ زمانہ سے یا آئندہ ہونے والے زمانہ سے متلعق ہو۔ اللہ تعالیٰ کو ہر چیز کا کامل علم اس کے وجود سے پہلے ہی سے ہے۔ [۱]
(۲) اللہ تعالیٰ نے انسان کو اچھے اور برے کاموں کی صلاحیت عطا کی ہے۔ اگر وہ اچھے اعمال کرےگا، تو ثواب کا مستحق ہوگا اور اگر بُرے اعمال کرےگا، تو عذاب کا مستحق ہوگا الّا یہ کہ اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو معاف فرما دیں۔ [۲]
(۳) سارے اچھے اور برے حالات اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیش آتے ہیں۔ لہذا مؤمن کو چاہیئے کہ وہ کسی نعمت پر (جس سے وہ لطف اندوز ہو رہا ہے) فخر کا اظہار نہ کرے اور نہ ہی کسی مصیبت و پریشانی پر (جس سے وہ دوچار ہے) شکوہ و شکایت کرے؛ بلکہ وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کا شکر گزار بنے اور مصیبت و پریشانی میں صبر سے کام لے۔ [۳]
[١] خلق الله تعالى الأشياء لا من شيء وكان الله تعالى عالما في الأزل بالأشياء قبل كونها وهو الذي قدر الأشياء وقضاها ولا يكون في الدنيا ولا في الآخرة شيء الا بمشيئته وعلمه وقضائه وقدره وكتبه في اللوح المحفوظ ولكن كتبه بالوصف لا بالحكم. والقضاء والقدر والمشيئة صفاته في الأزل بلا كيف يعلم الله تعالى المعدوم في حال عدمه معدوما ويعلم أنه كيف يكون إذا أوجده ويعلم الله الموجود في حال وجوده موجودا ويعلم أنه كيف فناؤه ويعلم الله القائم في حال قيامه قائما وإذا قعد علمه قاعدا في حال قعوده من غير أن يتغير علمه أو يحدث له علم ولكن التغير والاختلاف يحدث عند المخلوقين (الفقه الأكبر صـ ٣٩)
[٢] وَ ہَدَیۡنٰہُ النَّجۡدَیۡنِ (سورة البلد:١٠)
فَمَنۡ یَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ خَیۡرًا یَّرَہٗ ؕ﴿۷﴾ وَ مَنۡ یَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ (سورة الزلزال: ٨)
(جميع أفعال العباد من الحركة والسكون) أي على أي وجه يكون من الكفر والإيمان والطاعة والعصیان (كسبهم على الحقيقة) أي لا على طريق المجاز في النسبة ولا على سبيل الإكراه والغلبة بل باختبارهم في فعلهم بحسب اختلاف أهوائهم وميل أنفسهم فلها ماکسبت و عليها ما اكتسبت (شرح الفقه الأكبر صـ ٤٩)
[۳] اَیۡنَمَا تَکُوۡنُوۡا یُدۡرِکۡکُّمُ الۡمَوۡتُ وَ لَوۡ کُنۡتُمۡ فِیۡ بُرُوۡجٍ مُّشَیَّدَۃٍ ؕ وَ اِنۡ تُصِبۡہُمۡ حَسَنَۃٌ یَّقُوۡلُوۡا ہٰذِہٖ مِنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ ۚ وَ اِنۡ تُصِبۡہُمۡ سَیِّئَۃٌ یَّقُوۡلُوۡا ہٰذِہٖ مِنۡ عِنۡدِکَ ؕ قُلۡ کُلٌّ مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ ؕ فَمَالِ ہٰۤؤُلَآءِ الۡقَوۡمِ لَا یَکَادُوۡنَ یَفۡقَہُوۡنَ حَدِیۡثًا (سورة النساء: ٧٨)
عن صهيب قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم عجبا لأمر المؤمن إن أمره كله خير وليس ذاك لأحد إلا للمؤمن إن أصابته سراء شكر فكان خيرا له وإن أصابته ضراء صبر فكان خيرا له (صحيح مسلم، الرقم: ٢٩٩٩)