اگر میّت کی لاش اس قدر گل گئی ہو کہ اگر اس کو ہاتھ لگایا جائے، تو اندیشہ ہے کہ وہ کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے تو اس صورت میں غسل کے لیے بس اتنا کافی ہوگا کہ اس پر پانی بہا دیا جائے۔ پھر میّت کو عام طریقہ کے مطابق کفن میں لپیٹ دیا جائے اور نمازِ جنازہ ادا کی جائےگی۔
البتہ اگر نمازِ جنازہ سے پہلے میّت کا جسم پھٹ جائے، تو اس کی نمازِ جنازہ ادا نہیں کی جائےگی؛ بلکہ پھٹے ہوئے جسم کو نمازِجنازہ کے بغیر دفن کر دیا جائےگا۔
اگر جسم پھٹا نہ ہو، مگر اس سے بدبو آ رہی ہو، تو بدبو کی وجہ سے نمازِ جنازہ نہیں چھوڑی جائےگی؛ بلکہ نمازِ جنازہ ادا کی جائےگی۔[۱]
میّت کے ڈھانچہ پر نمازِ جنازہ
اگر میّت کا صرف ڈھانچہ ملے، تو نہ تو اس کو غسل دیا جائےگا اور نہ ہی اس کی نمازِ جنازہ پڑھی جائےگی؛ بلکہ اس کو ایک کپڑے میں لپیٹ کر دفن کر دیا جائےگا۔ [۲]
Source: http://ihyaauddeen.co.za/?p=2346
[۱] ولو كان الميت متفسخا يتعذر مسحه كفى صب الماء عليه كذا في التتارخانية ناقلا عن العتابية (الفتاوى الهندية ١/١٥٨)
والمنتفخ الذي تعذر مسه يصب عليه الماء (مراقي الفلاح صـ ٥٦٩)
ويصلى عليه (ما لم يتفسخ)
قال العلامة الطحطاوي – رحمه الله -: قوله: (ما لم يتفسخ) أي تفرق أعضاؤه فإن تفسخ لا يصلى عليه مطلقا لأنها شرعت على البدن ولا وجود له مع التفسخ (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح صـ ٥٩٢)
[۲] ألا ترى أن العظام لا يصلى عليها بالإجماع (بدائع الصنائع ١/٣٠٢)