سوال:- اگر کسی شخص کو اپنی زکوٰۃ کی تاریخ سے پہلے کچھ مزید مال مل جائے اور وہ مال اس کی زکوٰۃ کی تاریخ پر اس کے پاس باقی رہے، تو کیا اس مزید مال پر بھی زکوٰۃ فرض ہے؟
مثال کے طور پر زید صاحبِ نصاب ہے، اس کی زکوٰۃ کی تاریخ رمضان المبارک کی پہلی تاریخ ہے۔ رمضان المبارک کی پہلی تاریخ سے کچھ دن پہلے زید کو دس لاکھ روپئے وراثت میں ملے، تو کیا اس مزید دس لاکھ روپئے پر بھی زکوٰۃ فرض ہوگی؟
الجواب حامدًا و مصلیًا
ہاں، زید کے ذمہ اس مزید دس لاکھ روپئے پر بھی زکوٰۃ فرض ہوگی۔
فقط واللہ تعالی اعلم
والمستفاد ولو بهبة أو إرث وسط الحول يضم إلى نصاب من جنسه فيزكيه بحول الأصل (رد المحتار ۲/۲۸۸)
ومن كان له نصاب فاستفاد في أثناء الحول مالا من جنسه ضمه إلى ماله وزكاه المستفاد من نمائه أولا وبأي وجه استفاد ضمه سواء كان بميراث أو هبة أو غير ذلك (الفتاوى الهندية ۱/۱۷۵)
وأما المستفاد في أثناء الحول فيضم إلى مجانسه ويزكي بتمام الحول الأصلي سواء استفيد بتجارة أو ميراث أو غيره (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح صـ ۷۱۵)
دار الافتاء، مدرسہ تعلیم الدین
اسپنگو بیچ، ڈربن، جنوبی افریقہ
Source: http://muftionline.co.za/node/32