فضائلِ صدقات – ۲۸

ایک چرواہے کا تقوی

نافع رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ایک دفعہ مدینہ منورہ سے باہر تشریف لے جا رہے تھے۔ خدام ساتھ تھے۔ کھانے کا وقت ہو گیا۔ خدام نے دسترخوان بچھایا۔ سب کھانے کے لیے بیٹھے۔

ایک چرواہا بکریاں چراتا ہوا گزرا۔ اس نے سلام کیا۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس کی کھانے کی تواضع کی۔ اس نے کہا: میرا روزہ ہے۔

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ اس قدر سخت گرمی کے زمانہ میں کیسی لُو چل رہی ہے۔ جنگل میں تو روزہ رکھ رہا ہے! اس نے عرض کیا کہ میں اپنے ایّامِ خالیہ کو وصول کر رہا ہوں۔

(یہ قرآن پاک کی ایک آیتِ شریفہ کی طرف اشارہ تھا، جو سورہ حاقّہ میں ہے کہ حق تعالیٰ شانہ جَنّتی لوگوں کو فرمائیں گے:

كُلُوا وَاشْرَبُوا هَنِيئًا بِمَا أَسْلَفْتُمْ فِي الْأَيَّامِ الْخَالِيَةِ

کھاؤ اور پیو مزہ کے ساتھ ان اعمال کے بدلہ میں، جو تم نے گزرے ہوئے زمانہ میں (دنیا میں) کیے ہیں)۔

اس کے بعد حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے امتحان کے طور پر اس سے کہا کہ ہم ایک بکری خریدنا چاہتے ہیں۔ اس کی قیمت بتا دو اور لے لو۔ ہم اس کو کاٹیں گے اور تمہیں بھی گوشت دیں گے کہ افطار میں کام دےگا۔ اس نے کہا کہ یہ بکریاں میری نہیں ہیں۔ میں تو غلام ہوں۔ یہ میرے سردار کی بکریاں ہیں۔

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ سردار کو کیا خبر ہوگی! اس سے کہہ دینا کہ بھیڑیا کھا گیا۔ اس نے آسمان کی طرف اشارہ کیا اور کہا:

فَأَيْنَ الله؟

اور اللہ تعالیٰ کہاں چلے جائیں گے؟ (یعنی وہ پاک پروردگار تو دیکھ رہا ہے۔ جب وہ مالک الملک دیکھ رہا ہے، تو میں کیسے کہہ سکتا ہوں کہ بھیڑیا کھا گیا؟)

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما تعجب اور مزے سے بار بار فرماتے تھے: ایک چرواہا کہتا ہے:

أَيْنَ اللهُ؟ أَيْنَ اللهُ؟

(اللہ تعالیٰ کہاں چلے جائیں گے؟ اللہ تعالیٰ کہاں چلے جائیں گے؟)۔

اس کے بعد ابن عمر رضی اللہ عنہما شہر میں واپس تشریف لائے، تو اس غلام کے آقا سے اس غلام کو اور بکریوں کو خرید کر غلام کو آزاد کر دیا اور وہ بکریاں اس کو ہبہ کر دیں۔

یہ اس وقت کے چرواہوں کا حال تھا کہ ان کو جنگل میں بھی یہ فکر تھا کہ اللہ تعالیٰ شانہ دیکھ رہے ہیں۔ (فضائلِ صدقات، ص ۷۰۶-۷۰۷)

Check Also

فضائلِ اعمال – ۳۵

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تقوٰی کے بیان میں حضرات صحابہ کرام رضی الله …