سوال:- کیا زکوٰۃ ایسے آدمی پر فرض ہے جو صاحبِ نصاب ہے؛ لیکن اس کے ذمہ قرض بھی ہے؟
الجواب حامدًا و مصلیًا
اس سلسلہ میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ جن مال پر زکوٰۃ فرض ہے، ان سب کا حساب لگایا جائے پھر اس سارے مال سے قرض کی مقدار کو وضع کیا جائے، قرض کی مقدار وضع کرنے کے بعد اگر بقیہ مال جو اس کی ملکیت میں ہے زکوٰۃ کے نصاب کے بقدر ہو یا اس سے زیادہ ہو، تو بقیہ مال پر زکوٰۃ فرض ہوگی؛ لیکن اگر بقیہ مال جو اس کی ملکیت میں ہے زکوٰۃ کے نصاب سے کم ہو یا سارا مال باقی نہ رہے، تو زکوٰۃ فرض نہیں ہوگی۔
مثال کے طور پر:
(۱) اگر کسی کے پاس چالیس (٤٠) ہزار روپے ہیں اور زکوٰۃ کا نصاب پینتیس (۳۵) ہزار روپے ہیں اور قرض کی مقدار چھتّیس (٣٦) ہزار روپے ہیں، تو قرض کی مقدار وضع کرنے کے بعد بقیہ مال چار (٤) ہزار روپے بچتے ہیں؛ لہذا اس کے اوپر زکوٰۃ فرض نہیں ہوگی؛ کیونکہ بقیہ مال جو اس کی ملکیت میں ہے زکوٰۃ کے نصاب سے کم ہے۔
(۲) اگر کسی کے پاس پچاس (۵۰) ہزار روپے ہیں اور زکوٰۃ کا نصاب پینتیس (۳۵) ہزار روپے ہیں اور قرض کی مقدار دس (۱۰) ہزار روپے ہیں، تو قرض کی مقدار وضع کرنے کے بعد بقیہ مال چالیس (٤٠) ہزار روپے بچتے ہیں؛ لہذا اس کے اوپر زکوٰۃ فرض ہوگی؛ کیونکہ بقیہ مال جو اس کی ملکیت میں ہے زکوٰۃ کے نصاب سے زیادہ ہے۔
فقط واللہ تعالی اعلم
فارغ عن دين له مطالب من جهة العباد (الدر المختار ۲/۲٦٠)
ومنها أن لا يكون عليه دين مطالب به من جهة العباد عندنا فإن كان فإنه يمنع وجوب الزكاة بقدره حالا كان أو مؤجلا (بدائع الصنائع ۲/٦)
ومن كان عليه دين يحيط بماله فلا زكاة عليه وإن كان ماله أكثر من الدين زكى الفاضل إذا بلغ نصابا (مختصر القدوري صـ ۵۱)
دار الافتاء، مدرسہ تعلیم الدین
اسپنگو بیچ، ڈربن، جنوبی افریقہ
Source: http://muftionline.co.za/node/28