علامات قیامت – نوّیں قسط ‏

دجال کے فتنوں سے کیسے بچیں؟

احادیث مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو ہر زمانے کے فتنوں اور خصوصا دجال کے فتنوں سے حفاظت کا طریقہ سکھایا ہے؛ چناں چہ ایک حدیث شریف میں ہے کہ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! (فتنوں سے) نجات کا طریقہ کیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی زبان کو  قابو میں رکھو، تمہارا گھر تمہارے لیے کافی ہو اور اپنی گناہوں پر رویا کرو۔ (سنن ترمذی، الرقم: ۲۴۰۶)

اس حدیث شریف میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین ہدایات بیان فرمائی ہیں، جن کے ذریعے ہم ہر زمانے کے فتنوں اور خصوصا دجال کے فتنوں سے نجات مل سکتے ہیں۔

(۱) اپنے گھر کے اندر رہیں

پہلی ہدایت یہ ہے کہ انسان اپنے گھر میں رہے اور فتنوں کی جگہوں سے گریز کرے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمایا ہے کہ قیامت سے پہلے فتنوں کا یہ حال ہوگا کہ اگر کوئی شخص ان کی طرف صرف نظر ڈالےگا، تو وہ فوراً اس کو اپنے اندر کھینچ لیں گے؛ چناں چہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

مَنْ تَشَرّفَ لَهَا تَسْتَشْرِفُهُ

جو اس کی طرف دیکھنے کے لیے اپنی گردن بڑھائےگا، وہ اس کو اپنے اندر کھینچ لےگا۔ (صحیح البخاری، الرقم: ۳۶۰۱)

لہٰذا ہر شخص اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو بچانے کے لیے اس بات کا اہتمام کرے کہ وہ اور اس کے اہل وعیال ہر ایسے مجمع یا جگہ سے بالکل دور رہیں، جہاں فتنہ اور گناہ کا ارتکاب کیا جاتا ہو۔

ایک اور حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں پر اپنے گھروں میں رہنے کی تاکید فرمائی؛ چناں چہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

كُوْنُوْا أَحْلَاسَ بُيُوْتِكُمْ

اپنے گھروں کے ٹاٹ (کی طرح) بنو۔ (سنن ابی داؤد، الرقم: ۴۲۶۲)

یعنی جس طرح قالین کا اندرونی حصہ (ٹاٹ) زمین سے لگا رہتا ہے اور حرکت نہیں کرتا، اسی طرح انسان کو (دین وایمان کی حفاظت کے لیے) اپنے گھر میں رہنا چاہیئے۔

(۲) اپنے کلام اور بات چیت میں بہت احتیاط کریں

دوسری ہدایت یہ ہے کہ انسان اپنے گفتگو اور بات چیت میں انتہائی احتیاط کرتا ہے؛ کیوں کہ بات چیت سے فتنہ شروع ہوتا ہے۔

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی مذکورہ بالا حدیث میں اگرچہ لفظ ‘زبان’ استعمال ہوا ہے؛ مگر حدیث کے مفہوم بات چیت کے ان تمام ذرائع کو شامل کرتا ہے، جن میں آدمی کو احتیاط کرنا چاہیئے؛ اس لیے کہ ان ذرائع سے انسان کی باتیں پہنچائی جاتیں ہیں۔

لہذا ہر انسان کو چاہیئے کہ وہ بات چیت کرنے کے لیے جس ذریعے کا بھی استعمال کرے (خواہ وہ موبائل ہو یا سوشل میڈیا یا کوئی اور ذریعہ ہو)، وہ احتیاط کے ساتھ اس کا استعمال کرے۔

یہ بات ذہن نشین رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اپنے گھروں میں رہنے کا حکم اس لیے دیا ہے کہ جب انسان اپنے گھر کے حدود میں رہتا ہے، تو باہر کی دنیا سے اس کا تعلق کم ہو جاتا ہے؛ نیز بیرونی فتنوں میں اس کے شکار ہونے کا امکان بہت کم رہتا ہے۔

لہٰذا اگر کوئی شخص گھر کے اندر رہتا ہے؛ لیکن انٹرنیٹ، فون، سوشل میڈیا وغیرہ کے ذریعے باہر کی دنیا میں ہونے والے تمام واقعات کی خبر رکھتا ہے، تو اگرچہ وہ گھر کے اندر ہے، وہ اس شخص سے الگ نہیں ہے، جو گھر سے باہر ہے؛ کیوں کہ وہ گھر کے باہر کی ہونے والی تمام چیزوں سے متاثر ہوتا ہے اور آسانی سے فتنے کا شکار ہو جاتا ہے۔

(۳) اپنی کمزوریوں اور گناہوں کے بارے میں ہمیشہ فکرمند رہیں

 تیسری ہدایت یہ ہے کہ انسان کو اپنی کمزوریوں اور گناہوں کے بارے میں ہمیشہ فکرمند رہنا چاہیئے اور اپنی اصلاح کی پوری کوشش کرنی چاہیئے۔

اگر کوئی شخص اپنی زندگی کا جائزہ لے، تو وہ اپنی زندگی میں بے شمار خامیوں اور کوتاہیوں کو دیکھےگا؛ لہذا وہ اپنی کوتاہیوں پر روئے اور اپنے تمام گناہوں سے توبہ کرے اور اپنی اصلاح کی کوشش کرے۔ جب وہ اپنی کمزوریوں اور گناہوں پر نظر رکھےگا، تو وہ دوسروں کے عیوب کے پیچھے نہیں پڑےگا۔

(۴) قرآن وسنت کو مضبوطی سے تھامے رکھیں

مذکورہ بالا تین ہدایات کے علاوہ دوسرے احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو حکم دیا ہے کہ وہ دنیا کے عظیم چیلنجوں کے باوجود قرآن کریم اور سنت مبارکہ کو مضبوطی سے تھامے رکھے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

بے شک تم اپنے رب کی طرف سے واضح ہدایت پر قائم رہوگے؛ جب تک دو چیزوں کا نشہ تم پر غالب نہ آئے:  جہالت کا نشہ اور عیش وعشرت کی محبت کا نشہ۔ تم اِس وقت لوگوں کو نیک کاموں کا حکم دے رہے ہو، برے کاموں سے روک رہے ہو اور دین کے لیے جہاد کر رہے ہو؛ مگر جب دنیا کی محبت تم پر غالب آجائےگی، تو تم لوگوں کو نیک کاموں کا حکم نہیں دوگے، برے کاموں سے نہیں روکوگے اور دین کی خاطر جہاد نہیں کروگے۔ جو لوگ اُس وقت قرآن مجید اور سنت مبارکہ کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہوں گے، وہ اسلام کے آغاز میں مہاجرین وانصار رضی اللہ عنہم کی طرح ہوں گے۔ (مسند البزّار، الرقم: ۲۶۳۱؛ مجمع الزوائد، الرقم: ۱۲۱۵۹)

(۵) کفار کے طریقوں کی مشابہت سے اجتناب کریں

بہت سی احادیث میں امت کو منع کیا گیا ہے کہ وہ کفار کے طریقوں کی نقل کرے اور وہ ان کی فیشن اور طرز زندگی میں ان کی پیروی کرے؛ کیوں کہ جب کوئی شخص کفار کی پیروی کرتا ہے، تو وہ ان کے فتنوں اور خطاؤں کا شکار ہو جاتا ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے دشمنوں یعنی یہود ونصاریٰ کے تہوار کی مشابہت سے بچو، کیوں کہ ان پر اللہ تعالیٰ کا غضب  نازل ہوتا ہے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ (اگر تم نے ان کی تقلید کی یا ان کی کسی تقریب میں شرکت کی تو) اللہ تعالیٰ کا غضب تم پر نازل ہو گا۔ جب تم ان کے باطن کا حال (اور ان کے دلوں میں اسلام کے لیے جو نفرت ہے ، اس کو ) نہیں جانتے ہو ، تو تم ان کے طریقے اور طرز عمل کو کیسے اپناتے ہو؟” (شعب الایمان نمبر 8940)

 اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ جو شخص کفار کی سرزمین میں رہتا ہے، ان کی تقریبات میں شرکت کرتا ہے اور ان کی تقلید کرتا ہے ، یہاں تک کہ وہ اسی حالت میں مر گیا، وہ قیامت کے دن ان کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔

  1. سورہ یٰسین اور سورہ کہف کی تلاوت کریں۔

ذہنی سکون و اطمینان کے ساتھ ساتھ دینی سلامتی اور برکت کے حصول کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں روزانہ سورہ یٰسین اور ہر جمعہ کو سورہ کہف پڑھنے کی ترغیب دی ہے ۔ ان دونوں سورتوں کی آیات میں  غور کیا جائے ،  تو ہمیں معلوم ہوگا کہ سورہ یٰسین کا موضوع آخرت ہے ، جب کہ سورہ کہف کا موضوع دین کی حفاظت کا طریقہ ہے ، کیوں کہ  غار کے نوجوانوں نے اسی طریقے پر عمل کر کے اپنے آپ کو  فتنہ سے بچایا تھا  اور اپنے دین وایمان کی حفاظت کی تھی۔  اس لیے ان سورتوں کی تلاوت کے وقت اللہ تعالٰی سے یہ امید رکھنی چاہیے کہ وہ ہمیں آخرت کی بھلائی عطا کرے گا اور دنیا و آخرت کے فتنوں سے ہماری حفاظت فرمائے گا۔

Check Also

باغ محبت – اڑتیسویں قسط‎ ‎

کبھی بھی کسی بھی شخص کی اصلاح سے مایوس مت ہونا عبد اللہ بن مسلمہ …