سأل سيدنا عمرو بن العاص رضي الله عنه ذات مرة فقال: يا رسول الله، أي الناس أحبّ إليك؟ قال صلى الله عليه وسلم: عائشة قال: من الرجال (من أحبّ إليك)؟ قال: أبو بكر قال: ثم من؟ قال: عمر قال: ثم من؟ قال: أبو عبيدة بن الجراح (صحيح ابن حبان، الرقم: ٤٦٠، صحيح البخاري، الرقم: ٣٦٦٢)
حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما نے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ آپ کو تمام لوگوں میں سب سے زیادہ کس سے محبت ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عائشہ۔ انہوں نے پھر پوچھا: مردوں میں (آپ کو سب سے زیادہ کس سے محبت ہے)؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابو بکر۔ انہوں نے پھر پوچھا: ان کے بعد (آپ کو سب سے زیادہ کس سے محبت ہے)؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمر۔ انہوں نے پھر پوچھا: ان کے بعد (آپ کو سب سے زیادہ کس سے محبت ہے)؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابو عبیدہ بن جراح۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عملی طور پر امت کے سامنےحضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کے مقام ومرتبہ کا اظہار کرنا
ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکر، حضرت عمر، حضرت ابو عبیدہ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ تشریف فرما تھے۔
اسی دوران حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک مشروب پیش کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اپنے ہاتھ میں لیا اور حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو دیا کہ وہ پہلے نوش کریں؛ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کی وجہ سے حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے پہلے پینا پسند نہیں کیا؛ چنانچہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ پہلے پینے کے زیادہ مستحق ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر ان سے فرمایا کہ ابو عبیدہ! اس برتن کو لے لو اور (پہلے) تم پیو، تو حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست اقدس سے اس برتن کو لے لیا۔
پینے سے پہلے حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے ایک بار پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تعظیما عرض کیا: اے اللہ کے نبی! آپ اسے لے لیجیئے (اور پہلے نوش فرمائیے)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا:
اشرب فإن البركة مع أكابرنا
(اے ابو عبیدہ!) تم (پہلے) پیو؛ کیوں کہ برکت ہمارے بڑوں کے ساتھ ہے (یعنی امت کو الله تعالیٰ کی طرف سے اس وقت برکت حاصل ہوگی، جب وہ اپنے بڑوں کے ساتھ ادب واحترام سے پیش آئےگی اور انہیں مقدّم رکھےگی)۔
اس کے بعد رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
فمن لم يرحم صغيرنا ويجلّ كبيرنا فليس منا
جو شخص ہمارے چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور ہمارے بڑوں کا احترام نہیں کرتا، وہ ہم میں سے نہیں ہے (یعنی وہ ہمارے طریقے کو یعنی سنت کو نہیں اپنا رہا ہے)۔ (مجمع الزوائد، الرقم: ۸۲۶۴)
نوٹ: یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ جب ہم بڑوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں، تو سنت طریقہ یہ ہے کہ ہم ان کے ساتھ محبت اور احترام سے پیش آویں۔ نیز ان کے ساتھ محبت اور احترام کی علامت یہ ہے کہ ہم ان کو اپنے اوپر ترجیح دیں۔
یہی وجہ ہے کہ جب رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم (جو تمام انبیاء اور رسولوں کے امام تھے) نے حضرت ابو عبیدہ رضی الله عنہ کو پہلے پینے کے لیے مشروب پیش کیا، تو حضرت ابو عبیدہ رضی الله عنہ نے پہلے پینا پسند نہیں کیا؛ بلکہ دو مرتبہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے درخواست کی کہ آپ پہلے پیئیں، اس لیے کہ آپ پہلے پینے کے زیادہ مستحق ہیں۔
البتہ جب رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے انہیں پہلے پینے کا حکم دیا، تو انہوں نے فورا اطاعت کی؛ کیوں کہ رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم (یا کسی بڑے) کے حکم کی اطاعت کرنا اور اس کو اپنے خواہش پر ترجیح دینا سنت ہے۔
اس واقعہ سے یہ بات واضح ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا مقصد یہ تھا کہ آپ امت کو حضرت ابو عبیدہ رضی الله عنہ کا بلند مقام ومرتبہ دکھائیں؛ تاکہ وہ بھی ان کا احترام کریں۔
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے لیے صحابہ کرام (اور امت) کے سامنے حضرت ابو عبیدہ رضی الله عنہ کے مقام ومرتبہ کو ظاہر کرنے کا ایک طریقہ یہ تھا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم اپنی زبان مبارک سے صحابہ کرام کے سامنے ان کی فضیلت بیان کرتے۔ اس طریقے کو بھی آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنایا تھا، جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہے کہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ابو عبیدہ اس امت کے خاص امین ہیں۔
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے لیے صحابہ کرام (اور امت) کے سامنے حضرت ابو عبیدہ رضی الله عنہ کے مقام ومرتبہ کو ظاہر کرنے کا دوسرا طریقہ یہ تھا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم صحابہ کرام کے سامنے عملا کوئی ایسا طریقہ اپنائیں، جس سے وہ حضرات ان کی عظمت وشرافت اور ان کا بلند مقام پہچان سکیں اور وہ ان کے ساتھ عزت واحترام کے ساتھ پیش آ سکیں؛ لہٰذا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے یہ طریقہ اپنایا کہ آپ نے ان سے گزارش کی کہ وہ سب سے پہلے نوش فرمائیں؛ تاکہ امت کے سامنے ان کا بلند رتبہ آشکارا ہو جائے۔