حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کو نفاق کا ڈر
حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں تھے۔ حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے وعظ فرمایا، جس سے قلوب نرم ہو گئے اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور اپنی حقیقت ہمیں ظاہر ہو گئی۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس سے اٹھ کر میں گھر آیا۔ بیوی، بچے پاس آ گئے اور کچھ دنیا کا ذکر، تذکرہ شروع ہو گیا اور بچوں کے ساتھ ہنسنا بولنا، بیوی کے ساتھ مذاق شروع ہو گیا اور وہ حالت جاتی رہی، جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں تھی۔
دفعتًا خیال آیا کہ میں پہلے کس حال میں تھا، اب کیا ہو گیا۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ تُو تو منافق ہو گیا کہ ظاہر میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تو وہ حال تھا اور اب گھر میں آ کر یہ حالت ہو گئی۔ میں اس پر افسوس اور رنج کرتا ہوا اور یہ کہتا ہوا، گھر سے نکلا کہ حنظلہ تو منافق ہو گیا۔
سامنے سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لا رہے تھے۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ حنظلہ تو منافق ہو گیا۔
وہ یہ سُن کر فرمانے لگے کہ سبحان اللہ! کیا کہہ رہے ہو؟ ہرگز نہیں۔
میں نے صورت بیان کی کہ ہم لوگ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہوتے ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم دوزخ اور جنّت کا ذکر فرماتے ہیں، تو ہم لوگ ایسے ہو جاتے ہیں؛ گویا وہ دونوں ہمارے سامنے ہیں اور جب حضور صلی اللہ علیہ کے پاس سے آ جاتے ہیں، تو بیوی، بچوں اور جائیداد وغیرہ کے دھندوں میں پھنس کر اس کو بھول جاتے ہیں۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ بات تو ہم کو بھی پیش آتی ہے، اس لیے دونوں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور جا کر حنظلہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول الله! میں تو منافق ہو گیا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا بات ہوئی؟
حنظلہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ جب ہم لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں اور آپ جنت ودوزخ کا ذکر فرماتے ہیں، تب تو ہم ایسے ہو جاتے ہیں کہ گویا وہ ہمارے سامنے ہیں؛ لیکن جب خدمتِ اقدس سے چلے جاتے ہیں، تو جا کر بیوی، بچوں اور گھر بار کے دھندوں میں لگ کر بھول جاتے ہیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس ذات کی قسم، جس کے قبضہ میں میری جان ہے! اگر تمہارا ہر وقت وہی حال رہے، جیسا میرے سامنے ہوتا ہے، تو فرشتے تم سے بستروں پر اور راستوں میں مصافحہ کرنے لگیں؛ لیکن حنظلہ! بات یہ ہے کہ گاہے گاہے، گاہے گاہے۔
ف: یعنی آدمی کے ساتھ انسانی ضرورتیں بھی لگی ہوئی ہیں، جن کو پورا کرنا بھی ضروری ہے۔ کھانا پینا، بیوی بچے اور ان کی خیر خبر لینا، یہ بھی ضروری چیزیں ہیں، اس لیے اس قسم کے حالات کبھی کبھی حاصل ہوتے ہیں۔ نہ ہر وقت یہ حاصل ہوتے ہیں اور نہ اس کی امید رکھنی چاہیئے۔
یہ فرشتوں کی شان ہے کہ ان کو کوئی دوسرا دھند ہی نہیں، نہ بیوی بچے، نہ فکرِ معاش اور نہ دنیوی قصے۔
اور انسان کے ساتھ چوں کہ بشری ضروریات لگی ہوئی ہیں، اس لیے وہ ہر وقت ایک سی حالت پر نہیں رہ سکتا؛ لیکن غور کی بات ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اپنے دین کی کتنی فکر تھی کہ ذرا سی بات سے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جو حالت ہماری ہوتی ہے، وہ بعد میں نہیں رہتی۔ اس سے اپنے منافق ہونے کا ان کو فکر ہو گیا۔
“عشق است وہزار بدگمانی” عشق جس سے ہوتا ہے، اس کے متعلق ہزار طرح کی بدگمانی اور فکر ہو جاتا ہے۔
بیٹے سے محبت ہو اور وہ کہیں سفر میں چلا جائے، پھر دیکھیے ہر وقت خیریت کی خبر کا فکر رہتا ہے اور جو یہ بھی معلوم ہو جائے کہ وہاں طاعون ہے یا فساد ہو گیا، پھر خدا جانے کتنے خطوط اور تار پہنچیں گے۔ (فضائلِ اعمال، حکایات صحابہ، ص 47-49)