حضرت سعد رضی اللہ عنہ کا براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز کا طریقہ سیکھنا‎ ‎

في السنة الحادية والعشرين من الهجرة، أتى بعض أهل الكوفة سيدنا عمر رضي الله عنه وشكوا إليه سيدَنا سعدَ بن أبي وقاص رضي الله عنه أنه لا يصلّي بهم صلاة صحيحة. فسأله سيدُنا عمرُ رضي الله عنه عن ذلك، فقال:

أما أنا والله فإني كنت أصلي بهم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم ما أخرم عنها (أي: لا أنقص) (صحيح البخاري، الرقم: ٧٥٥)

سن ۲۱ ہجری میں کوفہ کے کچھ لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے بارے میں شکایت کی کہ وہ صحیح طریقے سے نماز نہیں پڑھاتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے اس کے متعلق سوال کیا، تو انہوں نے جواب دیا:

اللہ کی قسم! میں بعینہ اسی طرح نماز پڑھاتا ہوں، جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھاتے تھے، میں اس میں کوئی کمی نہیں کرتا ہوں۔ (صحیح البخاری، الرقم: ۷۵۵)

بعض اہلِ کوفہ کے الزامات

سن ۲۱ ہجری میں کوفہ کے کچھ لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے بارے میں شکایت کی کہ وہ صحیح طریقے سے نماز نہیں پڑھاتے ہیں۔ اس وقت حضرت سعد رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے  کوفہ کے نامزد گورنر تھے۔

ان کی شکایت سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو بلایا۔ جب وہ آئے، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے نہایت ادب واحترام کے ساتھ فرمایا: اے ابو اسحاق (یہ ان کا لقب تھا)! کوفہ کے کچھ لوگ یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ آپ صحیح طریقے سے نماز نہیں پڑھاتے ہیں۔

حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: اللہ کی قسم! میں بعینہ اسی طرح نماز پڑھاتا ہوں، جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھاتے تھے، میں اس میں کوئی کمی نہیں کرتا ہوں۔

اس کے بعد حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھانے کا طریقہ بیان کیا اور فرمایا کہ جب میں انہیں عشاء کی نماز پڑھاتا ہوں، تو میں پہلی دو رکعتوں کو طویل کرتا ہوں اور دوسری دو رکعتوں کو مختصر کرتا ہوں (جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ تھا)۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے ابو اسحاق! آپ کے متعلق میری یہی رائے تھی۔

اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو چند لوگوں کے ساتھ کوفہ واپس بھیج دیا؛ تاکہ وہ ان پر لگائے گئے الزامات کی تحقیق کریں۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جن لوگوں کو بھیجا تھا، وہ کوفہ کی ہر مسجد میں جا کر لوگوں سے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے بارے میں سوال کئے۔ جب لوگوں سے سوال کیا گیا، تو ان کے پاس حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے بارے میں تعریفی کلمات کہنے کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔

آخرکار وہ قبیلہ بنو عبس کے محلے کی ایک مسجد میں پہنچے۔ وہاں پر اسامہ بن قتادہ نام کا ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ جب آپ نے مجھ سے سعد رضی اللہ عنہ کے بارے میں سوال کیا ہے، تو مجھے ان سے تین شکایتیں ہیں:

(۱) وہ لشکر کے ساتھ جہاد میں نہیں نکلتے ہیں۔

(۲) وہ مال کی تقسیم میں عدل وانصاف نہیں کرتے ہیں۔

(۳) وہ اپنے فیصلوں میں عادل نہیں ہیں۔

یہ جھوٹے الزامات سن کر حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم! (اگر تم جھوٹ بول رہے ہو، تو) میں تمہارے خلاف تین بد دعائیں کروں گا – اے اللہ! اگر آپ کا یہ بندہ جھوٹ بول رہا ہے اور وہ محض شہرت اور ناموری کے لیے کھڑا ہوا ہے، تو (۱) اس کی عمر دراز فرمائیے (۲) اس کی غربت لمبی کیجیئے (۳) اور اسے مسلسل فتنے میں ڈالیے۔

بعد میں جب لوگ اسامہ بن قتادہ سے اپنی حالت کے بارے میں پوچھتے، تو وہ جواب دیتا کہ میں بڑھاپے کو پہنچ گیا ہوں اور فتنے میں مبتلا ہوں اور یہ سب سعد رضی اللہ عنہ کی بد دعا ہے، جو  مجھے لگی ہے۔

اس واقعہ کے راویوں میں سے ایک عبد المالک کہتے ہیں کہ میں نے اسے (اسامہ بن قتادہ کو) اس حال میں دیکھا کہ انتہائی بڑھاپے کی وجہ سے اس کی بھنویں اس کی آنکھوں پر لٹک رہی تھیں اور وہ گلیوں میں نو عمر لونڈیوں سے چھیڑ خوانی کرتا تھا۔ (صحیح البجاری، الرقم: ۷۵۵)

Check Also

حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ‏اعتماد

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک مرتبہ سوال کیا گیا کہ اگر رسول اللہ …