آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک آپ کے رشتے داروں میں سب سے زیادہ محبوب

جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا:

قد أنكحتك أحب أهل بيتي إلي (المعجم الكبير للطبراني، الرقم: 364)

میں نے آپ کا نکاح اپنے رشتہ داروں میں سے اس شخص سے کیا ہے جو مجھ سے سب سے زیادہ محبوب ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت علی رضی اللہ عنہ کو قبروں کو ہموار کرنے، بتوں کو توڑنے اور تصویروں کو مٹانے کے لیے بھیجنا

حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔

اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مخاطب کرکے فرمایا:

تم میں سے کون اس بات کے لیے تیار ہے کہ وہ مدینہ منورہ واپس جائے اور جہاں کوئی بت دیکھے، اسے توڑ ڈالے اور جہاں کوئی ایسی قبر دیکھے جو اونچی بنائی گئی ہو (یعنی زمین کی سطح سے جائز حد سے اونچی ہو یا اس پر کوئی عمارت بنائی گئی ہو)، وہ اسے برابر کر دے (یعنی شریعت میں جتنی اونچائی کی اجازت ہے، اس کے مطابق بنادے) اور جہاں بھی (جان دار چیزوں کی) کوئی تصویر دیکھے، اس کو فوراً تباہ کردے؟

یہ سن کر ایک صحابی نے عرض کیا: میں یہ کام کروں گا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم!

تاہم، شہر میں داخل ہونے سے پہلے، وہ اپنے لوگوں کے خوف سے مغلوب ہو گئے؛ لہذا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس آئے اور اس ذمہ داری کی تکمیل سے عاجزی ظاہر کی۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ اس وقت حاضر تھے، انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: میں جاؤں گا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم!

اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ تشریف لے گئے اور جو ذمہ داری آپ کو سونپی گئی تھی، اس کی تکمیل کی۔

واپس آنے کے بعد انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا:

اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے شہر میں کوئی بت نہیں چھوڑا، سوائے یہ کہ میں نے اسے توڑ دیا، نہ کوئی قبر چھوڑی؛ مگر میں نے اس کو برابر کردیا (یعنی جو قبر جائز حد سے زیادہ اونچی بنائی گئی تھی، میں نے اس کو جائز حد کے مطابق بنا دیا) اور نہ کوئی (جاندار کی) تصویر نظر آئی؛ مگر میں نے اسے تباہ کر دیا۔

اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

جو شخص ان میں سے کوئی کام دوبارہ کرےگا (یعنی قبروں کو جائز حد سے زیادہ اونچی کرنا یا اس پر عمارت بنانا یا جاندار چیزوں کی تصویر بنانا)، تو اس نے پورے طور پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی چیزوں کی نافرمانی اور ناشکری کی (یعنی وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ دین کے احکام کی ناقدری کی)۔ (مسند احمد، الرقم: ۶۵۷)

اس واقعہ سے ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بے مثال بہادری اور جرأت دیکھ سکتے ہیں۔

اسی طرح اس واقعہ سے یہ واضح ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک فرمان کی تکمیل کے لیے ہمیشہ تیار تھے۔

Check Also

حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اعتماد‎ ‎

عيّن سيدنا عمر رضي الله عنه قبل موته ستة من الصحابة الكرام رضي الله عنهم …