باغِ محبّت (تینتیسویں قسط)

علمائے صالحین سے مشورہ کرنے کی اہمیت

“ہر فن میں اس کے ماہرین سے رجوع کریں” ایک اصول اور ضابطہ ہے جو عام طور پر بیان کیا جاتا ہے اور زندگی کے تمام شعبوں میں اس پر عمل کیا جاتا ہے۔

مثال کے طور پر غور فرمائیں کہ ایک شخص تین منزلہ مکان بنانا چاہتا ہے، تو وہ اپنے اس منصوبے کو پورا کرنے کے لیے کون سے اقدامات کرےگا؟

سب سے پہلے وہ نقشہ سازی کے لیے کسی ماہرِ تعمیرات (آرکیٹیکٹ) سے رابطہ کرےگا، پھر وہ مکان کی تعمیر کے لیے انجینئر اور ٹھیکیدار (کونٹراکٹر) کی خدمات حاصل کرےگا۔

ذرا تصور کیجیے کہ اگر وہ ماہر تعمیرات، انجینئر اور ٹھیکیدار کے تعاون کے بغیر اپنا مکان خود بنانا شروع کر دے، تو اس کا انجام کیا ہوگا؟ ہم بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ اپنے لیے اور دوسروں کے لیے کس قدر تباہ کن نتائج کا باعث بنےگا۔

صحیح رہنمائی، تجربہ اور مہارت کے بغیر اس بات کا قوی امکان ہے کہ اس مکان کا پورا ڈھانچہ منہدم ہو جائے اور اس کی زندگی اور دوسروں کی زندگی خطرے میں پڑ جائے۔

اسی طرح جب صحت سے متعلق کوئی پریشانی سامنے آ جائے، تو ماہر ڈاکٹروں کی رائے لی جاتی ہے، اسی طرح امورِ تجارت میں اکاؤنٹنٹ سے مشورہ کیا جاتا ہے اور جب کوئی قانونی دشواری پیش آتی ہے، تو وکیل سے رابطہ کیا جاتا ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ زندگی کے تمام شعبوں میں لوگوں کا طرزِ عمل یہ ہے کہ وہ اس اصول اور ضابطہ پر عمل کرتے ہیں اور وہ ان لوگوں سے مدد اور رہنمائی حاصل کرتے ہیں، جن کو وہ اپنے اپنے شعبوں میں ماہر اور تجربہ کار تسلیم کرتے ہیں۔

جس طرح اس اصول اور ضابطہ پر عمل کرنا انسان کے لیے زندگی کے تمام شعبوں میں ضروری ہے، اسی طرح دین میں بھی اس اصول اور ضابطہ پر عمل کرنا نہایت ضروری ہے۔

اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ جب ہمیں کسی دینی رہنمائی حاصل کرنے کی ضرورت ہو (خواہ دینی معاملہ میں ہو یا دنیوی معاملہ میں)، تو ہمیں چاہیئے کہ ہم بزرگانِ دین اور علمائے صالحین کی طرف رجوع کریں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو یہی تعلیم دی ہے کہ وہ کسی بھی معاملہ میں فیصلہ کرنے سے پہلے علمائے صالحین سے مشورہ کرے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ علماء کے پاس دین کا علم ہے؛ لہذا وہ ہمیں صحیح دینی مشورہ دے سکتے ہیں اور وہ ہماری صحیح رہبری کر سکتے ہیں، نیز جب آدمی ان سے مشورہ کرےگا، تو اس کو اپنے معاملہ میں شریعت کا صحیح حکم اور مسئلہ معلوم ہوگا، پھر وہ اپنے معاملہ میں صحیح فیصلہ کر سکےگا اور اللہ تعالیٰ کو راضی کر سکےگا؛ لہذا کسی بھی معاملہ میں دین کا علم حاصل کیے بغیر فیصلہ کرنا اندھیرے میں آنکھ بند کرکے چلنے کے مترادف ہے۔

نکاح کے معاملے میں بھی اسلام اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ انسان اپنے بڑوں سے مشورہ کرے اور ان سے رہنمائی حاصل کرے۔

خصوصاً لڑکی کے معاملے میں اسلام اس بات پر زیادہ زور دیتا ہے کہ وہ نیک شوہر کے انتخاب میں اپنے والدین اور خاندان کے بڑوں سے رہنمائی حاصل کرے۔ لڑکی کے لیے از خود شریکِ حیات تلاش کرنا اور اپنا نکاح خود کرنا انتہائی قابلِ مذمت اور خلافِ حیا بات ہے۔

چنانچہ حدیث شریف میں وارد ہے کہ اگر کوئی لڑکی اپنے ولی کے بغیر اپنا نکاح خود کرے، تو ایسا نکاح برکت اور خیر سے خالی ہوگا۔

حدیث شریف میں لڑکی کو اپنے والدین یا بڑوں سے رجوع کرنے کا حکم اس وجہ سے دیا گیا ہے کہ عام طور پر نیک والدین اپنی اولاد کے مقابلے میں زیادہ علم، فہم اور تجربہ رکھتے ہیں؛ کیوں کہ وہ ان مراحل سے گزر چکے ہیں اور زندگی کے نشیب وفراز دیکھ چکے ہیں؛ لہذا وہ اپنی اولاد کی صحیح رہنمائی کر سکتے ہیں۔

نیز لڑکی کی حفاظت اور سلامتی اس میں ہے کہ وہ اپنے والدین کے تجربے کی پیروی کرے، بجائے اس کے کہ وہ از خود اپنے لیے شریکِ حیات تلاش کرے۔

ایسی بہت سی مثالیں ہیں، جہاں عورتوں نے اپنے آپ کو بہت سی پریشانیوں اور مصیبتوں میں ڈال دیا؛ کیوں کہ انہوں نے از خود اپنے شوہروں کا انتخاب کیا اور اپنے والدین اور بڑوں سے مشورہ نہیں کیا۔

یہ بات ذہن نشین رہے کہ بزرگانِ دین اور علمائے صالحین کی طرف رجوع کرنا نہ صرف دین ودنیا میں سلامتی کے حصول کا ذریعہ ہے؛ بلکہ یہ خیر وبرکت، سعادت مندی، خوش حالی اور زندگی میں کامیابی وکامرانی کے حصول کی کلید بھی ہے۔

چنانچہ حدیث شریف میں وارد ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: برکت تمہارے بزرگوں کے پاس ہے۔ (مجمع الزوائد)

ایک اور حدیث شریف میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مشورہ کرنے والا نادم اور شرمندہ نہیں ہوگا۔ (مجمع الزوائد)

ذیل میں ایک عبرت انگیز واقعہ نقل کیا جا رہا ہے، جس سے اس بات کی بہت زیادہ اہمیت معلوم ہوتی ہے کہ ہمیں کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے اپنے بزرگوں اور علمائے صالحین سے مشورہ کرنا چاہیئے اور ان کی ہدایت پر عمل کرنا چاہیئے۔

شیخ علی طنطاوی رحمہ اللہ کی پوتی کا واقعہ

شیخ علی طنطاوی رحمہ اللہ ملکِ شام کے ایک عالم تھے۔

ان کی پوتی بیان کرتی ہیں کہ ان کی زندگی میں ایک موقع ایسا آیا کہ وہ اور ان کے خاندان کے افراد سب نے کینیڈا ہجرت کرنے کا ارادہ کیا۔

جب ان کے دادا، شیخ علی طنطاوی رحمہ اللہ کو معلوم ہوا، تو انہوں نے ان کو منع کر دیا اور ان سے کہا:

سر زمینِ کفر میں زندگی بسر کرنے کا انتخاب آپ کی اولاد کو دین سے محروم کر دینے کا باعث بنےگا؛ کیوں کہ یہ بات ممکن ہے کہ آپ تو اپنی اولاد کے دین کی حفاظت کر سکتے ہیں؛ لیکن آپ اپنی اولاد کی اولاد (پوتے، پوتیوں اور نواسے، نواسیوں) کے دین کی حفاظت کی ضمانت نہیں دے سکتے ہیں؛ لہذا ان کے دین کے ضائع اور برباد ہونے کی ذمہ داری اپنے سر پر مت لو۔

شیخ علی طنطاوی رحمہ اللہ کی پوتی کہتی ہیں کہ اس وقت تو مجھے ان کی بات کو قبول کرنے میں تردّد تھا اور مجھے یہ خیال آیا کہ وہ (میرے دادا) بہت سخت آدمی ہیں اور وہ صرف اپنے بچوں کی زندگی پر اپنا تسلّط باقی رکھنا چاہتے ہیں۔

تاہم میں نے اپنے جذبات کو قابو میں رکھا اور میں نے اور میرے خاندان کے افراد نے ان کے مشورہ کو قبول کرنے اور ان کی بات کو ماننے کا فیصلہ کیا۔

کچھ سالوں کے بعد جب میں نے دیکھا کہ بہت سے لوگوں کے بچے اور پوتے وغیرہ غیر مسلم ممالک کی طرف ہجرت کرنے کے بعد اسلام سے نکل گئے (یعنی وہ مرتد ہو گئے)، تو مجھے اپنے دادا کی نصیحت اور رہنمائی کی قدر معلوم ہوئی، پھر میں نے ان کے لیے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے۔

اب میں ان کی رائے سے پوری طرح متّفق ہوں اور جب بھی مجھے ان لوگوں کا کوئی واقعہ معلوم ہوتا ہے، جن کی اولاد اپنا دین کھو چکی ہے، تو مجھے ان کا دانش مندانہ فیصلہ یاد آتا ہے۔

مذکورہ بالا واقعہ سے ہم یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ حدیث شریف کی تعلیم پر عمل کرنا (یعنی ہمیشہ علمائے صالحین اور بزرگان دین سے رجوع کرنا) انتہائی اہم ہے؛ کیوں کہ ایسا کرنے سے انسان دین پر صحیح طریقہ سے چلےگا اور اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو دنیا اور آخرت کے نقصان اور خسارے سے بچائےگا۔

Check Also

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری – نویں قسط

چار ذمہ داریاں – دین کے تحفظ کی بنیاد دنیا میں دین قائم کرنے کے …