نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من سبّ عليا فقد سبّني (مسند أحمد، الرقم: ٢٦٧٤٨)
جس نے علی کو برا بھلا کہا، یقینا اس نے مجھے برا بھلا کہا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دل میں آخرت کا خوف
کمیل بن زیاد رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں:
ایک مرتبہ میں حضرت علی رضی الله عنہ کے ساتھ تھا، جب وہ کوفہ سے نکل کر جبان (شہرِ کوفہ کے مضافات) کی طرف گیے۔
جبان پہونچ کر حضرت علی رضی الله عنہ نے قبرستان کا رخ کیا اور بلند آواز سے کہا:
اے قبر والو! اے لوگو جن کے جسم بوسیدہ ہو گئے ہیں! اے تنہائی میں رہنے والو! تمہاری کیا حالت ہے؟ ہماری حالت (یہاں دنیا میں) یہ ہے کہ میت کے اموال تقسیم ہو چکے ہیں، میت کے بچے یتیم ہو چکے ہیں اور میت کی بیوی/شوہر نے اب دوبارہ نکاح کر لیا ہے! یہ ہمارا حال ہے، آپ ہمیں اپنے حال کی خبر دیں (یعی قبروں کے اندر آپ کی حالت کیسی ہے)؟
پھر حضرت علی رضی الله عنہ میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اے کمیل! اگر الله تعالی نے ان قبر والوں کو بولنے کی اجازت دی ہوتی، تو وہ یوں کہتے: بہترین توشہ (آخرت کے لیے) تقویٰ ہے۔
حضرت علی رضی الله عنہ پھر رونے لگے اور فرمایا:
اے کمیل! قبر درحقیقت ایک صندوق ہے جس میں انسان کے اعمال (خیر وشر) ہوتے ہیں۔ موت کے وقت ہی انسان کو معلوم ہوگا کہ اس نے کون سے اعمال آگے بھیجے ہیں جو قبر میں اس کے لیے انتظار کر رہے ہیں (یعنی قبر میں ہر شخص کی حالت – عذاب یا آرام کا – اس کے اعمال کے مطابق ہوگی)۔ (تاریخ دمشق ۵۰/۲۵۱)