نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
ألا ترضى أن تكون مني بمنزلة هارون، من موسى إلا أنه ليس نبي بعدي (صحيح البخاري، الرقم: ٤٤١٦)
کیا تم خوش نہیں ہو کہ تم مجھ سے ایسے ہو، جیسے ہارون (علیہ السلام) موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے تھے؛ مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئےگا؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مدینہ منورہ کا حاکم مقرر کرنا
جنگ تبوک کے موقع پر جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم مدینہ منورہ سے روانہ ہو رہے تھے، تو آپ نے حضرت علی رضی الله عنہ کو اپنی غیر موجودگی میں مدینہ منورہ کے امور کی دیکھ بھال کے لیے حاکم مقرر فرمایا۔
چنانچہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے حکم پر حضرت علی رضی الله عنہ لشکر کے ساتھ نہیں نکلے؛ بلکہ مدینہ منورہ میں ہی مقیم رہے۔
اس کے بعد بعض لوگوں نے یہ افواہیں پھیلانا شروع کر دیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے حضرت علی رضی الله عنہ کو غزوہ میں شرکت سے اس لیے منع فرما دیا تھا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم ان سے ناراض تھے۔
یہ سن کر حضرت علی رضی الله عنہ فوراً رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ کچھ لوگ اس طرح کی باتیں کہہ رہے ہیں۔
ایک روایت میں آیا ہے کہ حضرت علی رضی الله عنہ نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے عرض کیا: اے الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم! میں نہیں چاہتا کہ عرب میرے بارے میں کہیں کہ اس نے اپنے چچا زاد بھائی (یعنی رسول الله صلی الله علیہ وسلم) کو چھوڑ دیا اور لشکر سے پیچھے رہ گیا۔
مزید یہ کہ حضرت علی رضی الله عنہ کو اس بات کا بہت زیادہ شوق تھا کہ وہ اسلامی لشکر میں شامل ہوں کر الله تعالٰی کے راستے میں جہاد کریں۔
ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ حضرت علی رضی الله عنہ نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے عرض کیا: اے الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم! کیا آپ مجھے عورتوں اور بچوں کے ساتھ چھوڑ کر جا رہے ہیں؟
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے انہیں تسلی دی اور ان سے فرمایا: کیا تم خوش نہیں ہو کہ تم مجھ سے ایسے ہو، جیسے ہارون (علیہ السلام) موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے تھے؛ مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئےگا۔
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے حضرت على رضي الله عنه سے یہ بات اس وجہ سے فرمائی؛ کیونکہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہِ طُور پر تشریف لے جا رہے تھے، تو انہوں نے اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو لوگوں کا نگراں مقرر فرمایا تھا۔ اس سے نبی ہارون علیہ السلام کے بلند مقام اور ان پر حضرت موسی علیہ السلام کا اعتماد اور بھروسہ ثابت ہوتا ہے۔
اسی طرح رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے حضرت علی رضی الله عنہ کو خبر دی کہ جب میں نے آپ کو اپنی عدم موجودگی میں مدینہ منورہ کے امور کی دیکھ بھال کے لیے حاکم مقرر کیا، تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ مجھے آپ پر اعتماد ہے اور میں آپ سے راضی ہوں۔
حضرت علی رضی الله عنہ نے جب یہ سنا، تو انہوں نے فوراً عرض کیا کہ اب میں راضی ہوں، اب میں راضی ہوں (یعنی میں الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے فیصلے سے راضی ہوں)۔
(من صحيح البخاري، الرقم: ٤٤١٦، فتح الباري ٧/٧٤)