عدت کی سنتیں اور آداب – ۱

عدت

جب شوہر اپنی بیوی کو طلاق دے دے یا اس کا انتقال ہو جائے یا دونوں میاں بیوی کے نکاح کو فسخ کر دیا جائے (بشرطیکہ شرعی عدالت میں فسخِ نکاح کی شرطوں کا لحاظ رکھا جائے)، تو شریعت کا حکم یہ ہے کہ بیوی پر عدت واجب ہے۔

معتدّہ (عدت میں بیٹھنے والی عورت) کے لیے بہت سے مسائل ہیں۔ ذیل میں عدت کے بارے میں کچھ مسائل بیان کیے جا رہے ہیں:

طلاق کے بعد عدت کے احکام

(۱) جب شوہر اپنی بیوی کو طلاق دے دے، تو بیوی کے لیے عدت میں بیٹھنا ضروری ہے۔

 اگر عورت کو حیض آتا ہو، تو تین حیض گزرنے کے بعد اس کی عدت پوری ہو جائے گی۔

(۲) اگر عورت کو حیض نہ آتا ہو (مثال کے طور پر وہ عمر دراز عورت ہو اور اس کا حیض بند ہو گیا ہو)، تو طلاق کی صورت میں اس کی عدت تین قمری مہینے ہوگی۔

 یہ حکم اس صورت میں ہوگا، جب شوہر اپنی بیوی کو قمری مہینہ کی پہلی تاریخ پر طلاق دے دے۔

(۳) اگر شوہر نے اپنی بیوی کو قمری مہینہ کے درمیان میں طلاق دی ہو (یعنی اس نے اس کو دوسری تاریخ کو یا اس کے بعد طلاق دے دی)، تو اس صورت میں اس کی عدت کی پوری مدّت نوّے دن ہوگی۔

(۴) اگر شوہر نے اپنی بیوی کو حالتِ حمل میں طلاق دے دی، تو اس صورت میں اس کی عدت وضعِ حمل (بجّے کی پیدائش) تک ہوگی۔ جب بجّہ پیدا ہو جائے، تو اس کی عدت پوری ہو جائےگی، خواہ بچے کی پیدائش تک تھوڑی مدت گزر جائے یا زیادہ۔

(۵) اگر شوہر نے اپنی بیوی کو مرضِ وفات میں ایک طلاقِ رجعی دے دی (طلاق رجعی وہ طلاق ہے جس کے بعد شوہر کو رجوع کرنے کا حق ہے) اور بیوی کی عدّت پوری ہونے سے پہلے شوہر کا انتقال ہو جائے، تو اس صورت میں بیوی کی عدت کی مدّت بدل جائےگی یعنی بیوی کی عدت تین حیض نہیں ہوگی؛ بلکہ چار مہینے دس دن ہو جائےگی۔

(۶) اگر شوہر نے اپنی بیوی کو مرضِ وفات میں ایک طلاقِ بائن دے دی (طلاق بائن وہ طلاق ہے جس کے بعد شوہر کو رجوع کرنے کا حق نہیں ہے) اور بیوی کی عدت پوری ہونے سے پہلے شوہر کا انتقال ہو جائے، تو اس صورت میں یہ دیکھا جائےگا کہ عدتِ وفات (چار ماہ اور دس دن) اور عدتِ طلاق (تین حیض) میں سے کون سی مدّت زیادہ ہے۔

اگر عدتِ وفات کی مدّت (چار ماہ اور دس دن) عدتِ طلاق کی مدّت (تین حیض) سے پہلے ختم ہو جائے، تو بیوی کی عدت تین حیض گزرنے سے پوری ہوگی۔

اگر عدتِ طلاق کی مدّت (تین حیض) عدتِ وفات کی مدّت (چار ماہ اور دس دن) سے پہلے پوری ہو جائے، تو بیوی کی عدت چار مہینے اور دس دن گزرنے سے پوری ہوگی۔

نوٹ: یہ حکم اس صورت میں ہے، جب کہ شوہر نے اپنی بیوی کو مرضِ وفات میں ایک طلاقِ بائن دے دی اور بیوی نے طلاق کا مطالبہ نہیں کیا۔

اگر بیوی کی طرف سے طلاق کے مطالبہ کی بناء پر شوہر نے اس کو ایک طلاقِ بائن دے دی، تو اس صورت میں بیوی کی عدت کی مدّت تین حیض ہی رہےگی؛ اگرچہ بیوی کی عدت کے دوران شوہر کا انتقال ہو جائے۔

(۷) عدت کے ایام بیوی اپنے شوہر کے گھر میں عدت گزارےگی۔

اگر شوہر نے اپنی بیوی کو طلاقِ بائن دے دی ہو، تو اس کے لیے اپنی بیوی کے قریب جانا جائز نہیں ہوگا؛ کیوں کہ بیوی اس کے نکاح سے نکل چکی ہے۔ اس صورت میں بہتر ہوگا کہ شوہر اس گھر سے نکل کر دوسرے گھر میں منتقل ہو جائے یا کم از کم اسی گھر میں کسی قسم کا حائل اور آڑ بنا لی جائے (تاکہ دونوں کے درمیان اختلاط نہ ہو)۔

(۸) اگر شوہر نے اپنی بیوی کو طلاقِ رجعی دے دی ہو، تو اس کے لیے بیوی کے پاس جانا جائز ہے اگر وہ طلاق سے رجوع کرنا چاہتا ہے۔

 اگر شوہر زبانی طور پر طلاق سے رجوع کر لے یا بیوی کو شہوت کے ساتھ ہاتھ لگائے یا اس کو چومے، تو رجعت ہو جائےگی اور بیوی کی عدت ختم ہو جائےگی۔

(۹) طلاق کے بعد بھی شوہر کی ذمہ داری ہے کہ وہ عدت پوری ہونے تک اپنی بیوی کو نان ونفقہ دے دے۔

جب بیوی کی عدت پوری ہو جائے، تو شوہر پر اس کے نان ونفقہ کی ذمہ داری ختم ہو جائےگی؛ تاہم وہ اپنے بچوں کے نان ونفقہ کا ذمہ دار رہےگا۔

Check Also

زکوٰۃ کی سنتیں اور آداب – ۱

زکوٰۃ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے۔ زکوٰۃ سن ۲ …