حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی عظیم فضیلت

حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

لو كان نبي بعدي لكان عمر بن الخطاب

اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا، تو وہ عمر بن الخطاب ہوتے (لیکن چوں کہ میں خاتم الانبیاء ہوں؛ اس لیے میرے بعد کوئی نبی نہیں آئےگا)۔

(سنن الترمذی، الرقم: ۳۶۸۶)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تواضع

حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو نیزہ مارا گیا، تو وہ غمگین رہنے لگے اور امت کے بارے میں بہت زیادہ فکر مند ہو گئے۔

ان کی کیفیت کو دیکھ کر حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے انہیں تسلی دیتے ہوئے فرمایا:

اے امیر المؤمنین! آپ کو غم زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے؛ کیونکہ آپ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہے اور آپ نے ان کی صحبت کا حق ادا کر دیا، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس دار فانی سے اس حال میں رخصت فرما گئے کہ وہ آپ سے راضی تھے۔

اس کے بعد آپ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی صحبت میں رہے اور آپ نے اس تعلق کو انتہائی عزت واحترام کے ساتھ نبھایا، پھر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اس حالت میں اس دنیا سے رخصت ہو گئے کہ وہ آپ سے راضی اور خوش تھے۔

حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد آپ مسلمانوں کے درمیان (امیر المؤمنین کی حیثیت سے) رہے اور آپ نے امت مسلمہ کے حقوق کی ادئیگی میں ذرہ برابر کوتاہی نہیں کی؛ لہذا اگر آپ کی وفات ہو جائے اور آپ مسلمانوں سے جدا ہو جائے، تو یقینا آپ ان سے اس حال میں جدا ہوں گے کہ وہ آپ سے راضی ہیں۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی بات سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اور مجھ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضامندی کے بارے میں جو کچھ آپ نے بیان کیا، تو (اس میں میرا کوئی کمال نہیں ہے؛ بلکہ) یہ محض اللہ تعالی کا مجھ پر عظیم احسان اور فضل وکرم ہے۔

جہاں تک حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ میری رفاقت وصحبت اور مجھ سے ان کی رضامندی کی بات ہے، تو یہ بھی اللہ تعالی کا میرے اوپر بڑا احسان اور بے پناہ فضل وکرم ہے۔

رہی یہ بات کہ تم مجھے بہت زیادہ غمگین اور فکرمند دیکھ رہے ہو، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ میں تمہارے بارے میں اور پوری امت کے بارے میں فکرمند ہوں (کہ میرے اس دنیا سے جانے کے بعد تمہارا کیا حال ہوگا)۔

اللہ کی قسم! اگر میرے پاس پوری دنیا کے برابر سونا ہوتا، میں اس کو اللہ تعالی کے عذاب سے اپنے آپ کو بچانے کے لیے بطور فدیہ خرچ کر دیتا، اس سے قبل کہ میں اللہ تعالی کے حضور میں کھڑا ہو جاؤں اور ان سے ملاقات کروں۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے خوف کا عالم دیکھیں! انہیں اس دنیا میں ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جنت کی خوش خبری دی گئی تھی، اس کے باوجود وہ موت کے وقت اللہ تعالی سے کتنا زیادہ ڈر رہے ہیں۔

Check Also

حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اعتماد‎ ‎

عيّن سيدنا عمر رضي الله عنه قبل موته ستة من الصحابة الكرام رضي الله عنهم …