حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
أنت صاحبي على الحوض (الكوثر يوم القيامة) وصاحبي في الغار (أثناء الهجرة) (سنن الترمذي، الرقم: ٣٦٧٠)
تم میرے رفیق ہوگے حوض (کوثر) پر (جیسا کہ ہجرت کے وقت) تم غار میں میرے رفیق تھے۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ غارِ ثور میں
ہجرت کے واقعہ میں منقول ہے کہ جب حضرت ابو بکر صدّیق رضی الله عنہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی رفاقت میں غارِ ثور تک پہونچے، تو حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے کہا: خدا کے واسطے آپ ابھی اس غار میں داخل نہ ہو جائے۔ پہلے میں اندر جاتا ہوں؛ تاکہ اگر اس میں کوئی موذی چیز (سانپ، بچھو وغیرہ) ہو اور وہ ضرر پہنچائے، تو وہ مجھے ضرر پہنچائےگا نہ کہ آپ کو۔
پھر حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ غار میں داخل ہوئے اور اس کو اچھی طرح صاف کیا۔ انہوں نے غار میں کئی سوراخ دیکھے، تو انہوں نے اپنے تہبند کو پھاڑا اور اکثر سوراخوں کو اپنے تہبند کے چیتھڑوں سے بند کر دیا۔ صرف دو سوراخ باقی رہ گئے (کیوں کہ ان کو بند کرنے کے لیے تہبند کے چیتھڑوں میں سے کچھ نہیں بچا تھا)، تو ان سوراخوں پر اپنے پیر رکھ کر بیٹھ گئے۔
پھر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اندر تشریف لائیے۔ چنانچہ نبی صلی الله علیہ وسلم غار میں داخل ہوئے اور حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ کی گود میں اپنا سر رکھ کر سو گئے۔
اسی دوران ایک سانپ نے سوراخ کے اندر سے حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ کے پیر میں کاٹا؛ لیکن انہوں نے اس ڈر سے اپنی جگہ سے حرکت نہیں کی کہ کہیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم جاگ نہ جائے۔ آخرکار (تکلیف کی شدت کی وجہ سے) ان کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل گئے اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر گرے۔
جس سے آپ کی آنکھ کھل گئی، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا: ابو بکر! تمہیں کیا ہوا؟ انہوں نے عرض کیا: اے الله کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان، مجھے کسی زہریلے جانور (سانپ) نے کاٹ لیا ہے۔ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے اپنا مبارک لعابِ دہن ان کے پاوں میں کاٹی ہوئی جگہ پر لگا دیا، تو وہ تکلیف فوراً دور ہو گئی۔ (مشکوۃ المصابیح)