حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کی بزرگی اور سچائی کا قصہ
حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ چھٹی صدی ہجری کے جلیل القدر علماء اور بلند پایہ بزرگان دین میں سے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بے پناہ مقبولیت عطا کی تھی جس کی وجہ سے آپ کے دست اقدس پر ہزاروں لوگوں نے گناہوں اور بدکاریوں سے توبہ کی تھی۔ آپ بہت سے ظاہری وباطنی کمالات واوصاف اور محاسن کے حامل تھے۔ آپ کے نرالے اوصاف ومبارک عادات میں سے دو نمایاں عادتیں: راست گوئی (سچائی) اور امانت داری سر فہرست ہیں۔
ذیل میں آپ کی راست گوئی (سچائی) کا ایک مشہور واقعہ نقل کیا جاتا ہے جس سے بہت سے لوگوں کے دل متأثر ہوئے؛ یہاں تک کہ اس زمانہ کے ڈاکو اور گنہگار بھی متأثر یوئے اور اپنے گناہوں سے باز آگئے تھے اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں میں شامل ہوگئے تھے۔
جب شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ نے دینی علم سیکھنے کا ارادہ کیا، تو اپنی والدہ سے اجازت مانگ کر انہوں ںے بغداد کی طرف سفر کیا اور اس زمانہ کے بڑے علماء سے دینی علم سیکھا۔ نیز حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ جب تحصیل علم کے لئے بغداد کے لئے روانہ ہوئے، تو آپ کی والدہ ماجدہ نے چالیس دینار آپ کی گدڑی میں بغل کے نیچے سے سل دیئے اور بیٹے کو رخصت کرتے وقت یہ نصیحت کی کہ بیٹا تم ہمیشہ سچ بولنا اور ہرگز جھوٹ نہ بولنا۔ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ نے اپنی والدہ ماجدہ کی زرّیں نصیحت کو دل میں لے لیا اور اس پر عزم کیا کہ وہ ہمیشہ سچا ہوگا اور تادم آخر اس پر عمل پیرا رہےگا۔
والدہ سے دعائیں لے کر حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ بغداد جانے والے ایک قافلہ کے ساتھ چل پڑے۔ دورانِ سفر ساٹھ ڈاکوؤں نے قافلہ پر حملہ کر دیا اور اہل قافلہ کا پورا مال ومتاع لوٹ لیا۔ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک ڈاکو میرے پاس آیا اور پوچھا: اے لڑکے ! تمہارے پاس کیا ہے؟ میں نے کہا: میرے پاس چالیس دینار ہیں۔ اس نے پوچھا: کہاں ہیں؟ میں نے جواب دیا کہ میرے کپڑے میں بغل کے نیچے سلے ہوئے ہیں۔ ڈاکو نے سوچا کہ میں مذاق کر رہا ہوں؛ لہذا وہ مجھے چھوڑ کر چلا گیا۔
کچھ دیر کے بعد دوسرا ڈاکو آیا۔ اس نے بھی وہی سوال کیا۔ میں نے اس کو بھی وہی جواب دیا جو پہلے کو دیا تھا۔ اس نے بھی یہی سوچا کہ میں مذاق کر رہا ہوں اور وہ مجھے چھوڑ کر چلا گیا۔ دونوں ڈاکوؤں نے یہ بات اپنے سردار کو بتائی، تو سردار نے ان دونوں کو حکم دیا کہ اس لڑکے کو میرے پاس لاؤ۔
چنانچہ ان دونوں نے حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کو لا کر اس کے سامنے حاضر کیا۔ اس نے پوچھا: اے لڑکے ! تمہارے پاس کیا ہے؟ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے جواب دیا: چالیس دینار۔ اس نے پوچھا: کہاں ہے؟ میں نے کہا: میرے کپڑے میں بغل کے نیچے سلے ہوئے ہیں۔
ڈاکو کے سردار نے تعجّب میں پوچھا کہ اے لڑکے ! تمہیں معلوم ہے کہ ہم ڈاکو ہیں۔ لوگوں کا مال لوٹ لیتے ہیں، آخر کس چیز نے تمہیں سچ بولنے پر آمادہ کیا؟ میں نے جواب دیا کہ سفر پر روانہ ہوتے وقت میری والدہ نے مجھے یہ نصیحت کی تھی کہ ہمیشہ سچ بولنا اور جھوٹ کبھی نہ بولنا اور میں نے اس وقت یہ وعدہ کیا تھا کہ میں ہمیشہ سچ ہی بولوں گا اور کبھی جھوٹ نہیں بولوں گا۔ اس لئے میں نے تمہیں سچ سچ بتا دیا۔
ڈاکوؤں کا سردار آپ کا جواب سن کر بہت زیادہ متأثر ہوا اور رونے لگا پھر اس نے کہا: اے لڑکے ! تم نے اپنی ماں کے عہد کا خیال رکھا اور اس کو توڑنا نہیں چاہا جب کہ میں اتنے سالوں سے اپنے رب کے عہد کو توڑ رہا ہوں (یعنی میں ڈاکہ زنی اور گناہوں کا ارتکاب کر رہا ہوں)،یہ کہہ کر اس نے ڈاکہ زنی اور گناہوں سے سچیّ توبہ کر لی۔
جب دوسرے ڈاکوؤں نے دیکھا کہ ان کے سردار نے توبہ کر لی ہے، تو سب نے بیک زبان ہو کر کہا: آپ رہزنی میں ہمارے سردار تھے، اب آپ توبہ میں بھی ہمارے سردار ہیں؛ لہذا ہم بھی توبہ کرتے ہیں۔ پھر سب نے توبہ کر لی اور لوٹا ہوا سارا مال قافلہ والوں کو لوٹا دیا۔
اس واقعہ سے معلوم ہو ا کہ جب شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ نے راست گوئی (سچائی) اور امانت داری کو مضبوطی سے پکڑ لیا، تو اس وجہ سے ساٹھ ڈاکو گناہوں سے تائب ہو گئے اور راہ راست پر آ گئے۔ اگر ہم بھی اس پر اپنی زندگی میں پورے طور پر عمل کریں گے، تو اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا میں بھی دکھائیں گے کہ کیسے اچھے ثمرات ہماری زندگی میں مرتّب ہوں گے۔
ایک حدیث شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سچائی اور امانت داری کی اہمیت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ سچائی کو مضبوطی سے پکڑو اس لئے کہ سچائی نیکی کا راستہ دکھاتی ہے اور نیکی جنّت کی طرف لے جاتی ہےاور انسان سچ بولتا رہتاہے؛ یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے یہاں سچا لکھ دیا جائےگا اور جھوٹ سے بچو اس لئے کہ جھوٹ برائی کا راستہ دکھاتا ہے اور برائی دوزخ کی طرف لے جاتی ہے اور انسان جھوٹ بولتا رہتا ہے؛ یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے یہاں جھوٹا لکھ دیا جائےگا۔ (مسلم شریف)
یہ امر واضح رہے کہ سچائی صرف بات چیت میں منحصر نہیں ہے؛ بلکہ سچائی دین اور دنیا کے تمام امور اور شعبوں میں مطلوب ہے؛ کیونکہ جب بندہ سچا اور راست گو ہوتا ہے، تو وہ تمام دینی اور دنیوی حقوق کو پابندی سے ادا کرےگا اور مخلوق کے ساتھ شفقت وہم دردی سے پیش آئےگا جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امّت کو سکھایا تھا اور حکم دیا تھا۔
خلاصۂ تحریر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا سچا بندہ ہمیشہ اپنے رب کی اطاعت وفرماں برداری کرتا ہے اور وہ ہر وقت فکر مند رہتا ہے کہ وہ اپنے رب کو کیسے راضی کرے اور حتی الوسع وہ مخلوق کی خدمت میں کیسے لگا رہے۔ جس شخص میں صفت ”صدق“ بدرجۂ اتم پائی جاتی ہے، وہ صدیقین کے مرتبہ پر فائز ہو جائےگا۔
صدیقین میں سے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو سرخیل بنایا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کے صدق کی وجہ سے انبیائے کرام کے بعد لوگوں کی امامت وپیشوائی کے لئے منتخب فرمایا تھا؛ لہذا وہ تمام صدیقین کے قائد اور امام ہیں۔ ان کی پوری زندگی کا ہر لفظ اور عمل صدق ووفا کا مظہر تھا۔
بچّوں کی تربیت میں ایک اہم بات یہ ہے کہ والدین اپنے بچوں کے اندر سچائی اور امانت داری کی صفات پیدا کرنے کی کوشش کریں؛ کیونکہ جب یہ صفات ان کے دلوں میں راسخ ہو جائیں گی، تو وہ پوری زندگی اللہ تعالیٰ کے اور مخلوق کے حقوق کو ادا کریں گے۔ نیز ان کی ظاہری اور باطنی زندگی ایسے گزرےگی کہ انہیں ہمیشہ اس بات کا استحضار ہوگا کہ ایک دن ہم کو اپنی زندگی کے ہر عمل کا حساب دینا ہوگا اور ایک دن اللہ تعالیٰ کے سامنے ہمیں حاضر ہونا ہوگا؛ لہذا جب ان کے اندر یہ خوبیاں پیدا ہوں گی، تو وہ رشد وہدایت کے چراغ بن جائیں گے، جن سے لوگ ہدایت اور روشنی حاصل کریں گے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو صادق اور امین بنائے۔آمین